انڈیا،بلیک مارکیٹ میں آکسیجن سلنڈروں کی قیمت دس گنا بڑھ گئی


انوشا پریا کے سُسر کی حالت کورونا سے بگڑتی جا رہی تھی مگر بہت تلاش کرنے پر بھی انھیں دہلی یا اس کے مضافاتی علاقے نوئیڈا میں اپنے سُسر کے لیے ہسپتال کا بستر نہیں ملا۔ انہوں نے آکسیجن سلنڈر تلاش کرتے ہوائے کافی وقت گزارا، مگر یہاں بھی وہ کامیاب نہ ہوسکیں۔آخرکار انوشا نے بلیک مارکیٹ کا رخ کیا۔ انہوں نے 50 ہزار انڈین روپے (تقریباً 670 ڈالر) دے کر ایک ایسا سلنڈر خریدا جو عام دنوں میں چھ ہزار روپے کا ملتا ہے۔ دوسری جانب انوشا کی ساس کو بھی سانس میں دشواری ہو رہی تھی اور انوشا کو پتا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ وہ بلیک مارکیٹ سے اپنی ساس کی سانسیں بحال رکھنے کے لیے ایک اور سیلنڈر نہ خرید سکیں۔یہ کہانی کوئی انوکھی نہیں ہے۔ دہلی اور نوئیڈا میں کیا، یہ حالات لکھنو، الہ آباد، اندور اور انڈیا کے بہت سے شہروں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ لوگ اپنے پیاروں کی جانیں بچانے کے لیے گھروں پر عارضی انتظامات کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں کیونکہ ہسپتال اپنی گنجائش سے زیادہ بھر چکے ہیں۔

مگر انڈیا کی زیادہ تر آبادی گھر پر صحت کے عارضی انتظامات کرنے کے لیے درکار مالی وسائل نہیں رکھتی۔ ایسی بہت سی رپورٹس آئی ہیں کہ لوگ ہسپتالوں کے دروازوں پر پڑے پڑے دم توڑ گئے کیونکہ وہ بلیک مارکیٹ میں انتہائی مہنگے داموں پر دستیاب ادویات یا آکسیجن نہیں خرید سکتے تھے۔حالات دہلی میں سب سے زیادہ خراب ہیں جہاں انتہائی نگہداشت کے کوئی بستر نہیں بچے۔ جو خرچہ اٹھا سکتے ہیں وہ نرسیں اور ڈاکٹروں کو انٹرنیٹ کے ذریعے فیسں دے کر مشورے لے رہے ہیں تاکہ ان کے پیاروں کی سانسیں چلتی رہیں۔مگر مشکل ہر موڑ پر ہے، بلڈ ٹیسٹ کروانے سے لے کر سی ٹی سکین یا ایکس رے کروانے تک لیباٹریوں میں رش لگا ہوا ہے اور ٹیسٹ کے نتائج حاصل کرنے میں تین، تین دن تک لگ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹروں کو نہ مرض کی تیزی کا اندازہ ہو رہا ہے نہ وہ اس کا علاج کر پا رہے ہیں۔ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہ تاخیر بہت سے لوگوں کی جانیں خطرے میں ڈال رہی ہے۔

انوج تیواری نے اپنے بھائی کے علاج کے لیے گھر پر ایک نرس رکھ لی ہے کیونکہ انھیں کئی ہسپتالوں سے داخلے کے لیے منع کیا جا چکا تھا۔کچھ ہسپتال کہتے تھے کہ ان کے پاس بستر نہیں تو کچھ کہتے تھے کہ آکسیجن کی غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے وہ مزید مریض داخل نہیں کر رہے ہیں۔ دہلی میں تو آکسیجن کی کمی کی وجہ سے بہت سے لوگوں کی موت ہوئی ہے۔ شہر کے ہسپتال اس قدر دباؤ کا شکار ہیں کہ وہ عوامی سطح پر اعلان کر رہے ہیں کہ ان کے پاس کتنے گھنٹوں کی آکسیجن بچ گئی ہے۔ پھر حکومت حرکت میں آتی ہے، سلنڈر بھیجے جاتے ہیں تو کام کچھ وقت کے لیے آگے چلتا ہے۔

ہسپتالوں کی صورتحال دیکھ کر تیواری نے ایک آکسیجن بنانے کی مشین انتہائی مہنگے داموں خریدی تاکہ اُن کے بھائی کی سانسیں چلتی رہیں۔ تیواری کو ڈاکٹروں نے وائرس کش دوا کا انتظام کرنے کے لیے بھی کہا۔ مگر انہیں یہ دوا نہیں ملی۔ ان کے بھائی کی حالت بگڑتی جارہی ہے اور ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ جلد انہیں کسی ہسپتال کی ضرورت پڑے جہاں یہ دوا فراہم کی جا سکے۔وہ کہتے ہیں کہ کورونا مریضوں کی جان بچانے کی جنگ اب ہسپتالوں سے گھروں میں منتقل ہو چکی ہے، اور یہ مشکل اس لیے محسوس ہو رہی ہے کیونکہ ہمیں آکسیجن تک رسائی نہیں ہے۔

حکومت کی جانب سے اس دوا کی مناسب ترسیل کے تمام تر دعوے نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے ہیں۔ ماہر وبائیات ڈاکٹر للت کانت کہتے ہیں کہ دوا کی پروڈکشن میں اضافے کا فیصلہ بہت تاخیر سے لیا گیا اور یہ کہ حکومت کو کورونا کی دوسری ممکنہ لہر کے لیے تیار رہنا چاہیے تھا۔انہوں نے کہا کہ ’یہ دوا بلیک مارکیٹ میں دستیاب ہے جو کہ اس بات کے امکان کو ظاہر کرتی ہے کہ اس دوا کے سپلائی سسٹم میں لیکیج ہے جس پر قابو پانے میں ریگولیٹر ناکام نظر آ رہے ہیں۔ڈاکٹر کانت کے مطابق ’ہم نے کورونا کی پہلی لہر سے کچھ نہیں سیکھا۔لیکن لوگ اتنے مجبور ہیں کہ وہ ایسی مشکوک ادویات بھی خریدنے پر تیار ہیں اور بعض اوقات ان کے ساتھ دھوکہ بھی ہو چکا ہے۔ صارفین ایسے لوگوں کے فون نمبر شیئر کر رہے ہیں جو آکسیجن سے لے کر ادویات تک مہیا کرا سکتے ہیں لیکن ایسے تمام نمبر تصدیق شدہ نہیں ہیں۔مصیبت کی اس گھڑی میں لوگ کسی پر بھی بھروسہ کرنے کے لیے تیار ہیں جس سے کالابازاری خوب پھل پھول رہی ہے۔ کئی ریاستی حکومتوں نے بلیک مارکیٹ میں جعلی دوابیچنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا وعدہ کیا ہے اور کچھ لوگوں کو گرفتار بھی کیا گیا ہے لیکن بلیک مارکیٹ کا کاروباربغیر کسی رکاوٹ کے چل رہا ہے۔مسٹر تیواری کا کہنا ہے کہ ان جیسے لوگوں کے پاس زیادہ ادائیگی کے علاوہ کوئی اور راستہ ہی نہیں ہے۔