میاواکی جنگل کیا ہے؟

وزیراعظم عمران خان نے لاہور میں میاواکی جنگل کا افتتاح کر دیا ہے۔ یہ پروگرام بلین ٹری سونامی کا حصہ ہے۔ تاہم پاکستانی عوام کی اکثریت کو علم نہیں ہے کہ آیا اس مصنوعی جنگل میں پوسے اور درخت کس تکنیک کیساتھ اگائے جاتے ہیں۔میاواکی جنگل اگانے کی تکنیک دراصل جاپان سے تعلق رکھنے والے ایک ماہر نباتات اکیرا میاواکی کی تخلیق ہے، انہوں نے شبانہ روز محنت کے بعد اسے ایجاد کیا تاکہ دنیا میں پھیلتی ہوئی آلودگی پر قابو پایا جا سکے۔

کہا جاتا ہے کہ اکیرا میاواکی نے اپنی تحقیق میں پتا چلایا کہ جنگلوں کی چار تہیں ہوتی ہیں۔ جن میں بوٹیاں گھاس، جھاڑیاں، ذیلی انواع اور بڑے درخت شامل ہیں۔ اسی طریقے کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے مصنوعی طریقے سے جنگل اگانے کا طریقہ ایجاد کیا۔میاواکی جو طریقہ دریافت کیا اس کے تحت جنگل اگانے کیلئے زمین کو قدرتی مواد سے زرخیز بنایا جاتا ہے۔ اس کے بعد درختوں کے بیج بے ترتیبی کیساتھ زمین پر پھیلا دیئے جاتے ہیں۔میاواکی تکنیک میں بیجوں کی تعداد کو زیادہ رکھا جاتا ہے کیونکہ جنگل میں شروع میں پودوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے اس لیے ان کے درمیان ہوا اور خوراک کے لیے سخت مقابلہ ہوتا ہے جس کے باعث وہ معمول سے زیادہ تیزی سے اگتے ہیں۔میاواکی جنگل کے اگنے کی رفتار دس گنا زیادہ ہوتی ہے۔ اس طریقے سے جنگل دس گنا زیادہ رفتار سے اگتے ہیں اور 30 گنا زیادہ گھنے ہوتے ہیں۔اس کے بعد اگلے دو سے تین برس کے دوران اس علاقے کی نگرانی کی جاتی ہے، پودوں کو پانی دیا جاتا ہے اور غیر ضروری جڑی بوٹیاں الگ کر دی جاتی ہیں۔دو تین سال بعد جب جنگل اپنے پیروں پر کھڑا ہو جائے تو اسے مزید نگرانی کی ضرورت نہیں رہتی، سوائے اس کے کہ کوئی انسان آ کر نو خیز پودوں کو ضائع نہ کر دے۔ 20 سے 30 برس کے دوران میاواکی جنگل قدرتی جنگل کی طرح ہو جاتا ہے۔