یہ دولت مند لوگ آف شور یا شیل کمپنیاں کیوں بناتے ہیں؟کیا ہم بھی بنا سکتے ہیں؟

ہر طرف آف شور کمپنیوں کا شور ہے، پہلے پانامہ پیپرز اور اب پینڈورا پیپرز۔ جب بھی اس طرح کی کوئی رپورٹ سامنے آتی ہے تو عام آدمی سوچنے پہ مجبور ہو جاتا ہے کہ یہ آف شور اور شیل کمپنیاں آخر ہوتی کیا ہیں۔ کیا یہ اتنی آسان ہیں بنا نا۔کیا ہم بھی بنا سکتے ہیں؟اس میں کتنی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے؟ دنیا میں چند ممالک ایسے بھی ہیں جہاں ٹیکسز یاں تو بہت کم ہیں یا نہ ہونے کے برابر ہیں۔ تو وہاں آف شور کمپنیاں بنا کر دوسرے ممالک میں اثاثہ خریدے یا منتقل کیے جاتے ہیں۔ ان کو بنانی کے دو ہی مقاصد ہوتے ہیں ٹیکس سے بچنا اور اثاثہ کو بچانا۔

یہ کمپنیاں کیوں کے کسی غیر ملکی کی ملکیت ہوتی ہیں تو کمپنی پہ اس ملک کا قانوں لازم نہیں ہوتا۔ جہاں سے وہ کمپنی لین دین کرتی ہے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ان کمپنیوں میں نہ تو کوئی ملازم ہوتا ہے اور نہ ہی اس کے اصل مالک کا پتا ہوتا ہے۔ یہ بس ایک کاغذی کمپنیاں ہوتی ہیں ان کمپنیوں کو اختیار حاصل ہوتا ہے کہ جہاں اسے قائم کیا گیا ہے،اس ملک کے علاوہ کہیں بھی سرمایہ منتقل اور جائیداد خرید سکتے ہیں۔ ان ممالک کو ٹیکس ہیون بھی کہا جاتا ہے۔ دنیا میں ایسے درجنون ممالک ہیں جو آف شور کمپنیوں کے لیے سہولتیں فراہم کرتے ہیں جن میں پانامہ، سکاٹ لینڈ، برطانیہ، مکاؤ، سوٹزرلینڈ یہ سب سیف ہیونز ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ تمام کمپنیاں قانونی طور پہ جائز ہیں۔ بس ان کو ڈکلیئر کرنا ضروری ہوتا ہے۔ لیکن بد قسمتی سے ان کو بنانے والوں کامقصد ناجائز پیسوں کو خفیہ رکھنے کے لیے بنایا جا تا ہے۔ اپنے ملک پاکستان کی بات کروں تو آپ یہان بھی رہ کر آف شور کمپنی بنا سکتے ہو لیکن آپ کو اپنے آف شور اکاؤنٹس کو ڈکلیئرڈ کرنا پڑتا ہے۔ اور منی ٹریل دکھانی پڑتی ہے۔ بذریعہ انٹر نیٹ آپ بھی آف شور کمپنی کھول سکتے ہو جس کے لیے آپ کو چار سے پانچ ہزار ڈالر ز کی ضرورت ہوتی ہے۔

کئی ممالک نہایت آسانی سے آف شور کمپنی بنانے کی سہولت دیتے ہیں۔ بینکنگ سروس اتنی عمدہ ہوتی ہے جس میں آپ کی بہترین رہنمائی کی جاتی ہے۔پیڈوری پیپرز کی بات کریں۔ تو 600 سے زائد رپورٹرز، اور 117 ممالک کے 150 کے قریب میڈیا ہاؤسز کی تحقیقاتی رپورٹ ہے۔ جس میں پاکستان سمیت 54 ملکوں سے تعلق رکھنے والے 130ارب پتی افراد کی خفیہ جائیداد کا راز فاش کیا ہے۔ جس میں 35 عالمی رہنما، 91 ممالک اور 330 سے زائد سیاست دانوں، سرکاری عہدہ دار، فنکا ر بشمول قاتلوں اور مفروروں کے مالی رازوں کو فاش کیا گیا ہے۔انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلزم، آئی سی آئی جے نامی اورگنائزیشن اپنی طرز کی ایک انوکھی اورگنائزیشن ہے۔ امریکہ میں مقیم اس تنظیم کی اپنی ایک رپورٹنگ ٹیم ہے اور اس کے علاوہ دنیا بھر سے 100 سے زیادہ ممالک کے 280 بہترین انوسٹی گیٹو رپوٹررز اور 100 سے زائد میڈیا ہاؤسز جس میں گارڈین، بی بی سی اور نیو یارک ٹائمز بھی شامل ہیں، کے ساتھ مل کر کہانیوں کی تحقیقات پہ کام کرتے ہیں۔ یہ ایک فنڈڈ آرگنایزیشن ہے۔ جس کا مقصد سچ کو بے نقاب کرنا اور طاقتور کی جوابدہ ٹھہرانا ہے۔ منظر عام پہ آنے والی اس پینڈورا پیپر کے بارے میں آئی سی آئی جے کا کہنا ہے کہ یہ تاریخ کی سب سے بڑی لیکس ہیں 2013 میں آف شور لیکس، 2017 میں پیراڈائزڈ پیپر، 2016 میں پانامہ پیپرز اور 2019 میں چائنا کیبلز بھی اسے ادارے کی تحقیقاتی رپورٹس تھیں۔



ثنا امجد کونٹینٹ کری ایٹر اور بلاگر ہیں، معاشرتی امور جن میں بچوں کے حقوق ،ویمن رائٹس اور پیرنٹنگ سے جڑے معاملات میں خاص دلچسپی رکھتی ہیں۔