جس کا نام’’اے کیو خان‘‘ تھا

1974 میں دشمن ملک بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد دل میں ڈر بیٹھ گیا تھا کہ اگر اب پاکستان نے ایٹمی قوت بننے کی طرف دھیان نہ کیا تو بھارت پاکستان کو مٹا کے رکھ دے گا۔ اس وقت کے وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو کو ایک خط لکھا اور یورینیم انرچمنٹ کے بارے میں سمجھایا اور اپنی خدمات پیش کرنے کی خواہش کا بھی اظہار کیا۔ تاریخ گواہ ہے اس موقع پہ ذوالفقار علی بھٹو نے تاریخی جملہ کہا کہ ’’دی مین میک سینس‘‘ پاکستان سے جنوں کی حد تک پیار کرنے والے اے کیو خان آج ہم میں نہیں ہیں۔

مغربی دنیا کے مطابق اسلامی بم کے خالق تھے اور ہمارے لیے یقینا ایک محسن اور قومی ہیرو تھے۔ ڈاکٹر اے کیو خان کی سوانح عمری پڑھیں تو یقیں کامل ہو جاتا ہے کہ خدا تعالی نے جن لوگوں سے عظیم کام لینے ہوتے ہیں ان کے لیے راستے خود بخود بنتے چلے جاتے ہیں۔ یکم اپریل 1936 کو بھارت کے شہر بھوپال کے ایک سکول ماسٹر عبدا لغفور اور زلیخا کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوتا ہے جس کا نام عبدلقدیر خان رکھا جاتا ہے۔ ابھی آپ گیارہ سال کے تھے جب پاکستان اور بھارت کے علیحدہ علیحدہ وجود نے جنم لیا۔ 1952 میں بھوپال سے میٹرک کا امتحان پا س کیا اور خاندان سمیت پاکستان منتقل ہو گئے۔ اور کراچی مین رہائش اختیار کر لی۔ ڈی جے سندھ گورنمنٹ سائنس کالج سے گریجویشن کی اور ۱1961 میں اعلی تعلیم کے لیے ہالینڈ چلے گئے۔

جہاں آپ نے مٹیریلز ٹیکنالوجی میں ایم ایس کیا اور بلجیم کی لیوین یونیورسٹی سے 1972 میں پی ایچ ڈی ان سٹیل کی۔ جیسا کہ ابتداء میںبیان کیا گیاکہ خدا نے جن لوگوں سے عظیم کام لینے ہوتے ہیں ان کے لیے راستے خود بخود بنتے چلے جاتے ہیں۔ اپنی سوانح عمری داستان عزم میں لکھتے ہیں کہ1960 میں برلن یونیورسٹی نے انہیں پی ایچ ڈی کے لے داخلہ دے دیا لیکن اس کے لیے جرمن زبان سیکھنا لازم تھا۔ جس پر آپ افسردہ ہوگئے اور نائیجیریا میں ایک استاد کی نوکری کے لیے اپلائی کیا۔ اور اس بارے میں اپنے پی ایچ ڈی کے سپروائزر کو آگاہ کیا۔

اس موقع پر ان کے استاد کا کہنا تھا کہ نائیجریا جانے پہ آپ کی زندگی آرام دہ تو ہو جائے گی لیکن آپ ایک استاد کی حیثیت سے ہی ختم ہو جائیں گے لیکن اگر آپ ایک ریسرچر کی حیثیت سے کام کرتے ہیں تو زندگی میں کچھ قابل قدر پا سکیں گے۔ پروفیسر کی اس بات پر آپ نے نائیجریا جانے کا ارادہ بدل دیا۔ اور پھر تاریخ بننے کا آغاز ہوا۔

آپ نے پہلی نوکری ایمسٹرڈیم میں فزکس ڈائنامکس ریسرچ لیبارٹری کے ساتھ کی، تاہم جلد ہی وہ ایٹمی بجلی گھروں کے لیے جوہری ایندھن کے لیے گیس سنٹری فیوج طریقہ استعمال کرنے والے یورینکو نامی گروپ سے منسلک ہو گئے۔ 1974میں دشمن ملک بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد آپ کے دل میں ڈر بیٹھ گیا تھا کہ اگر اب پاکستان نے ایٹمی قوت بننے کی طرف دھیان نہ کیا تو بھارت پاکستان کو مٹا کے رکھ دے گا۔

قصہ مختصر، ڈاکٹر اے کیو خان جس عزم کو لے کے پاکستان آئے تھے وہ آخرکار28 مئی 1998 کو چاغی کے پہاڑوں پہ سنائی دیا۔ اور پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر کر دیا۔ اور پھر وہ ہوا جو ہر محسن کے ساتھ ہوتا ہے۔ ہزیمت، الزام تراشی، اور قید آپ کے یہ الفاظ کہ میں نے پاکستان کو ایکبار ایٹمی طاقت بنا کے بچایا اور دوسری بار اپنے اوپر الزامات لے کر بچایا ان کے محب وطن ہونے کا واضح ثبوت تھا۔ 13 جنوری2004 کو آپ کو جوہری ٹیکنالوجی کی منتقلی پر گرفتار کیا گیا اور چند دن بعد آپ نے ان الزامات کو قبول کرتے ہوئے یہ الفاظ دہرائے ’’ میں نے پاکستان کو ایکبار ایٹمی طاقت بنا کے بچایا اور دوسری بار اپنے اوپر الزامات لے کر بچایا۔۔ اور کچھ نہ کہہ کر بھی سب کچھ کہہ دیا۔مغربی میڈیا کے ان کے بارے میں یہ الفاظ کہ آپ اسامہ بن لادن کی طرح دنیا کے لیے خطرناک ہیں۔ مغربی میڈیا کی تنگ نظری کا کھلا ثبوت ہے۔ اس اعتراف کے بعد اس قومی ہیرو کو ساری زندگی تنہائی میں گزارنا پڑی۔ ڈاکٹر خان ایک انسانیت پسند انسان تھے۔ مارگلہ کی پہاڑیوں پہ بسنے والے بہت سے لوگوں نے انہیں بلیوں اور بندروں کی دیکھ بھال میں مشغول دیکھا ہے۔ فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ حلقہ احباب میں یاروں کے یار مانے جاتے تھے۔ آپ کی وصیت میں آپ کو ایک مقامی قبرستان میں دفنانے کا ذکر تھا۔آپ کو پورے ریاستی اعزازات کے ساتھ دفنایا گیاڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کیا خوب کہا تھااس ملک بے مثال میں اک مجھ کو چھوڑ کرہر شخص بے مثال ہے اور باکمال ہے۔




ثنا امجد کونٹینٹ کری ایٹر اور بلاگر ہیں، معاشرتی امور جن میں بچوں کے حقوق ،ویمن رائٹس اور پیرنٹنگ سے جڑے معاملات میں خاص دلچسپی رکھتی ہیں۔