الیکٹرونک ووٹنگ مشین کیسے کام کرے گی؟

جمہوریت کی کامیابی میں بہت سے عناصر کا عمل دخل ہے جن میں سے ایک انتخابی عمل کی شفافیت بھی شامل ہے۔ آج کے جدید دور میں جہاں ہر چیز میں جدت کا رنگ غالب ہے تو ووٹنگ کے عمل کو بھی جدت سے محروم رکھنا ناانصافی ہو گی۔ واضح رہے، الیکٹرونک ووٹنگ مشین کے استعمال کا بل اب ایوان میں پاس ہو چکا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بھی اس میں جڑی تکنیکی تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اس کو تجرباتی بنیادوں پر بلدیاتی انتخابات میں استعمال کر کے اس کی تکنیکی نظام کی جانچ پڑتال کا حکم دیا ہے۔

کامسیٹس نامی پبلک یونیورسٹی کی تیار کردہ اس ووٹنگ مشین کو سیاستدانوں اور میڈیا کے معائنے کے لیے پارلیمنٹ ہاؤس میں نمائش کے لیے رکھا ہوا ہے۔ دوستو! چار حصوں پہ مشتمل یہ ایک بڑے سائز کی مشین ہے۔ جس کا پہلا حصہ ایک بڑے ٹیلی فون سیٹ کی طرح ہے جس پر کی پیڈ، چھوٹی سکرین، شناختی کارڈ ڈالنے کی جگہ اور انگوٹھا سکین کرنے کا سینسرہے۔صرف ایک چپ کے استعمال سے 50 ہزار تک ووٹرز کا ڈیٹا چند سیکنڈز میں اس میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔

مشین کو آپریشنل کرنے کے لیے پریزائیڈنگ آفیسرخفیہ کوڈ اور پاس ورڈ کا استعمال کر گا جو ایک تکنیکی عملی فراہم کرے گا۔ اس حصے کو ووٹر’شناختی یونٹ‘ کا نام دیا گیا ہے۔ جس میں ووٹر اپنا شناختی کارڈ پولنگ عملے کو دے گا۔ شناختی کارڈ کی تصدیق ہونے کی صورت میں سکرین پر ٹک کا نشان سامنے آ جائے گا۔ جس کے بعد سینسر کے ذریعے بائیو میٹرک ویری فیکیشن ہوگی۔الیکٹرونک ووٹنگ مشین کے دوسرے حصے کا نام ’کنٹرول یونٹ ہے۔ جس کا کنٹرول پریزائیڈنگ آفیسر کے پاس ہو گا۔ جس پر سرخ اور سبز رنگ ک لائٹیں لگی ہوںگی۔ پریذائیڈنگ افسر سبز رنگ کی لائٹ جلا کر ووٹر کو ووٹ ڈالنے کا عندیہ دے گا۔

تیسرا حصہ بیلٹ یونٹ کہلاتا ہے جس میں ووٹر متعلقہ حلقے کے امیدواروں کے انتخابی نشان کو دبائے گا۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے چوتھے اور آخری حصے یعنی ’بیلٹ باکس‘ میں ووٹر کی پسند کے امیدوار کی پرچی پرنٹ ہوکر گر جائے گی۔ پرچی بیلٹ باکس میں گرنے سے پہلے تین یا پانچ سیکنڈز کے لیے رکے گی تاکہ ووٹر دیکھ سکے کہ اس نے جس امیدوار کو ووٹ ڈالا ہے پرچی بھی اسی کے نام کی پرنٹ ہوئی ہے یا نہیں۔جونہی پولنگ کا وقت ختم ہوگا پریزائیڈنگ آفیسر ایک سادہ سی کمانڈ کے ذریعے چند منٹوں میں متعلقہ پولنگ بوتھ کا فارم 45 کا پرنٹ حاصل کر سکے گا۔

دوستو! اس سارے عمل میں صرف انگوٹھے کی تصدیق میں وقت درکار ہو گا۔ باقی سارا عمل صرف دس سے پندرہ سیکنڈ لے گا۔ اگر الیکٹرونک ووٹنگ مشین کی تعداد اور پیش آنے والے تخمینہ کاذکر کروں تو ابھی تک الیکشن کیشن کی طرف سے اس پہ حتمی کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ ای وہ ایم ایک بہترین نظام ثابت ہو سکتا ہے اگر س پہ بھرپور ریسرچ کر کے اس کو ہر طرح کے تکنیکی اور مالیاتی مسائل سے پاک کیا جائے۔


ثنا امجد کونٹینٹ کری ایٹر اور بلاگر ہیں، معاشرتی امور جن میں بچوں کے حقوق ،ویمن رائٹس اور پیرنٹنگ سے جڑے معاملات میں خاص دلچسپی رکھتی ہیں۔