روس،یوکرین تنازع۔۔۔۔آخر یوکرین کیا چاہتا ہے اور روس کیا نہیں چاہتا؟

روس، یوکرین اور مغربی ممالک کے درمیان تنازع کی شدت نے پوری دنیا میں تشویش لاحق کی ہوئی ہے۔ ان گنت جانی نقصان کے ساتھ ساتھ توانائی اور عالمی معیشت کوبھی اس وقت شدید خدشات کا سامنا ہے۔کہیں کہا جا رہا ہے کہ یہ تیسری عالمی جنگ ہے تو کہیں یہ تسلی دی جارہی ہے کہ معاملات پابندیوں پر آکرختم ہو جائیں گے۔

آخر یوکرین کیا چاہتا ہے اور روس کیا نہیں چاہتا؟ یہ معاملہ کیا ہے اور اس کی جڑیں کہاں سے نکلتی ہیں۔ اس معاملے کو سمجھنے کے لیے تارخ کا جاننا بہت ضروری ہے۔یوکرین سویت یونین میں شامل ہونے سے پہلے روسی سلطنت کا ایک حصہ تھا1991سوویت یونین

کے ٹوٹنے کے بعد یو کرین سمیت 15 ریاستوں کو آزادی حاصل ہوئی۔

کہیں نہ کہیں روس یوکرین کوا ب بھی اپنا ہی حصہ سمجھتا رہتاتھا۔ اس لیے روس نے اپنے کچھ علاقوں کا انتظامی کنٹرول یو کرین کو دے دیا تھا۔ جس میں دارلحکومت کیف بھی شامل تھا۔ واضح رہےکہ یوکرین میں ودیم روسی نسل ایک بڑی تعداد میں اب بھی آباد ہیں۔ کریمیا، دونیستک اور لوہانسک یہ وہ علاقے ہیں جہاں روسی نسل آباد ہیں اور یہ روس کے ساتھ شمولیت چاہتے ہیں۔آج بھی یوکرین میں بڑے پیمانے پر روسی زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے۔

آزادی حاصل کرنے کے بعد یوکرین کے لیے بڑے چیلنجز میں ان لوگوں کو اپنی طرف راغب رکھنا تھا لیکن اندر ہی اندر بننے والے روسی حمایتی گروپس اور مغرب حمایتی گروپس میں اختلافات شروع ہو گئے۔ دوسرا آزادی حاصل کرنے کے بعد یوکرین نے مغربی ممالک سے اپنے تعلقات بڑھانے شروع کر دئیے۔دوسری طرف نیٹو نے بھی مشرقی یورپ کا رخ کرنا شروع کر دیا تاکہ اپنے دفاعی اتحاد کو مضبوط سے مضبوط ترین کر سکے۔ جو ممالک سویت یونین کے غلبے سے باہر آئے تھے انہوں نے روس کی اجاراداری کو ختم کرنے کے لیے نیٹو کا رخ کیا۔ جن میں یوکرین بھی شامل تھا۔ اور یہ روس کے لیے ایک حساس معاملہ تھا اور اب تک ہے۔ دوسری طرف یوکرین کے اندر تب بھی روس کے حمایتی موجود تھے اور اب بھی ہیں۔ جن میں سابق یوکرینین صدر وکٹور یانوکووچ سر فہرست تھے۔ جنہوں نے یورپی یونین سے منسلک ہونے والے معاہدہ سے انکار کر دیا تھا۔جس پر ملک میں فسادات شروع ہوئے اور صدر کو اپنے عہدہ چھوڑنا پڑا۔ اس واقعہ کو روس نے اپنی شکست سمجھتے ہوئے ردعمل کے طور پر کریمیا پہ قبضہ کر لیا۔جس کے بعد سے یہ خطہ مختلف طاقتوں کے درمیان تقسیم ہو چکا تھا۔ ایک طرف روسی حمایتی گروپس اور دوسری طرف نیٹو اتحاد کے حامی گروپس۔ جس سے خانہ جنگی میں اضافہ ہو گیا۔جس میں اب تک کئی جانی نقصان ہو چکا ہے۔

حالیہ کشیدگی یوکرین کے امریکہ اور نیٹو سے دن بدن بڑھتے ہوئے تعلقات ہیں۔ یوکرین نے نہ صرف نیٹو کے ساتھ جنگی مشقیں کی ہیں بلکہ امریکہ سے ٹینک شکن میزائل اور ترکی سے ڈرونز بھی حاصل کیے ہیں۔بلیم گیم ابھی تک جاری ہے۔ روس کے مطابق یوکرین کو مغرب کی شہ ہے اور وہ یوکرین کو اپنے علاقے واپس لینے پراکساتے ہیں۔ جبکہ یوکرین کا کہنا ہے کہ روس نے جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔وہ معاہدہ جو فرانس اور جرمنی کی کوششوں سے 2015 میں دونوں کو جنگ بندی کی طرف لایا تھا۔ لیکن اس کا کوئی سیاسی حل نہیں نکل سکا۔

یہ خطہ مختلف طاقتوں کے درمیان تقسیم ہو چکا تھا۔ روسی اکثیریت والے علاقے دونیستک اور لوہانسک روسی حمایتی گروپس کے زور پہ خود کو آزاد علاقے تصور کرتے ہوئے خود کو دونیستک جمہوریہ اور لوہانسک جمہوریہ کہلواتے تھے۔ حالیہ دنوں میں روسی صدر کا یہ اعلان کہ دونیستک اور لوہانسک ایک آزاد ریاستیں ہیں۔ یوکرینین بارڈر سمیت اپنی فورسز ان علاقوں میں بڑھا دی ہیں۔روس اور امریکہ کی بھی سرد جنگ کافی پرانی ہے۔ امریکہ یوکرین کاحمایتی ہے۔ روس کو قابو میں کرنے کے لیے امریکہ نے نیٹو کے ساتھ مل کر رومانیہ اور پالینڈ سمیت کل 3 ممالک میں فو ج اور ہتھیار نصب کر رکھے ہیں۔ اور ان تینوں ممالک کی سرحدیں یوکرین سے ملتی ہیں۔ جسے روس اپنے گھر میں مداخلت قرار دیتا ہے۔ صدر پیوٹن روس اور یوکرین کو ایک ہی قوم مانتے ہیں اور موجودہ یوکرینین رہنماؤں کا اس تنازع کا زمہدار قرار دیتے ہیں۔ صدر پیوٹن کا یہ بھی ماننا ہے کہ روسی افواج کی پیش قدمی یوکرین میں امن بحالی اور جانی نقصان کو روکنے کے لیے کی گئی۔ روس نہ یوکرین کو یورپی یونین کا حصہ دیکھنا چاہتا ہے اور نہ ہی نیٹو کا۔ روس چایتا ہے کہ یوکرین ایک غیر جانبدار ملک کے طور پہ ایک طرف بیٹھا رہے۔ واضح رہےکہ یوکرین 2008 سے اس کوشش میں ہے کہ وہ یورپی یونین کے ساتھ ساتھ نیٹو کا بھی حصہ بن جائے تاکہ اسے تجارتی اور دفاعی فوائد حاسل ہو سکیں۔روس یہ بھی چاہتا ہے کہ امریکہ رومانیہ اور پولینڈ سمیت ان ممالک سے اپنی فوج اور ڈرونز کو ختم کرے۔یورپ سے لے کر اقوام متحدہ تک سب اس وقت روس کے مخالف ہیں۔ روس پرمالی اور سفری پابندیاں عائد کی جا چکی ہیں۔ موجودہ صورتحال میں امریکہ سمیت تمام یورپی ممالک نے روس پر اس جارحانہ کارروائی پرپابندیاں عائد کر دی ہیں۔صدر پیوٹن پر الزام یہ ہے کہ انہوں نے یورپ کے سکیورٹی ڈھانچہ کو نقصان پہنچایا ہے۔

صدر پیوٹن نے دوسرے ممالک کو خبردار کیا ہے کہ روس کے معاملات میں مداخلت نہ کریں گزشتہ روز اقوام متحدہ نے ہنگامی اجلاس طلب کیا جس میں روس اور یوکرین کا مسئلہ زیر بحث لایا گیا۔ اجلاس میں سو سے زیادہ ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی۔ جس میں امریکہ کی پیش کردہ قرادداد کی حمایت کی گئی۔ پاکستان کے علاوہ تمام ممالک نے اس قرارداد کی حمایت میں دستخط کیے۔ جس کے لیے پاکستان پہ سفارتی دباؤ ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ایک بات جو انتہائی واضح ہے کہ روس ابھی تک ماضی کو نہیں بھولا کہ کیسے ایک سپر پاور کو ختم کیا گیا۔ اور وہ اپنی سرحد کے آس پاس نیٹو کا اثر و رسوخ نہیں چاہتا۔عمومی خیال یہ ہے کہ جتنامغربی ممالک اس معاملے میں ملوث ہوں گے یوکرین پر روس کی چڑھائی بڑھتی جائے گی۔ سمجھ داری اسی میں ہے کہ یہ تمام ممالک مل کر یوکرین کو اقتصادی اور معاشی سپورٹ کریں تاکہ اس خطے میں امن لایا جا سکے۔


ثنا امجد کونٹینٹ کری ایٹر اور بلاگر ہیں، معاشرتی امور جن میں بچوں کے حقوق ،ویمن رائٹس اور پیرنٹنگ سے جڑے معاملات  میں  خاص دلچسپی رکھتی ہیں۔