میں مینار پاکستان ہوں!

میں مینار پاکستان ہوں۔تحریک پاکستان کی علامت۔۔ مملکت پاکستان کی سنہری تاریخ کا امین۔عزم و استقلال کا نشان۔میں دنیا میں اپنی نوعیت کا اکلوتا مینار ہوں دنیامیں کہیں بھی کسی بھی قرارداد کو منظور کرنے کی یاد اس طرح نہیں منائی گئی ۔میں! ایک اعلی لیڈر کی فکر و بصیرت کا استعارہ ہوں ۔میں! نشانی ہوں 23 مارچ 1940 کی۔ یہ وہ دن تھا جب ایک تاریخی قرارداد منظور کی گئی جس سے قیام پاکستان ممکن ہوا۔

میں کب وجود میں آیا؟میں کس کمال ذہن کا عکس ہوں؟یہ سب آپ کو بتاؤں گا23 مارچ1940 وہ دن جب بانی پاکستان محمد علی جناح کی زیر صدارت قرارداد پاکستان منظور ہوئی۔ جس کے نتیجے میں دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک پاکستان معرض وجود میں آیا۔ قیام پاکستان کے فورا بعد تو نہیں لیکن جب حالات بہتر ہوئے تو ان تمام قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرنے کی ترکیب سوچی جانے لگی۔ کہ کوئی یادگار ہونی چاہیے۔اس وقت کے صدر ایوب خان نے 1960میں ایک کمیٹی تشکیل دی جس کا نام تھا پاکستان ڈے میموریل کمیٹی جس کا کام یادگار کے ڈیزائن سے لے کر تعمیراتی فنڈز کے حصول کے طریقہ کار کو طے کرنا تھاخیال تھا کہ کوئی مسجد، میوزیم، باغ، لائبریری یا مینار تعمیر کیا جانا چاہیے۔قدیم مسلم روایات میں تو مساجد تعمیر کی جاتی تھیں۔ تاہم اس پہ اتفاق نہ ہواکافی بحث و تکرار کے بعد مینار کی تعمیر پہ سب راضی ہوئےابتدا میں تیں ڈیزائن پیش کیے گئے لیکن کوئی بھی پسند نہیں آیاآخر طے پایا کہ ا ن تینوں کو ملا کر ایک نیا ڈیزائن تیار کیا جائے گا۔جو آج میری صورت میں آپکے سامنے ہے۔

ڈیزائن کا کام روسی نژادترک مسلمان آرکیٹکٹ نصر الدین مرات خان نے کیاجو قیام پاکستان کا پس منظر جان کے اتنا متاثر ہوئے کہ پاکستان بننے کے چند سال بعد یہاں مستقل طور پہ رہائش اختیار کر لی۔ اور جذبہ اایسا کہ اس کام کی تنخواہ تک نہ لی۔ جو تقریبا دو لاکھ باون ہزار بنتی تھی۔بعد ازاں انہیں حکومت پاکستان کی طرف سے تمغہ امتیاز سے نوازا گیا۔

تعمیر کا کام 1960 کو شروع ہوا اور 1967 کو مکمل ہوا۔میں مغل اور جدید فن تعمیر کا شاہکار ہوں میں قصہ گو ہوں اس جدوجہد کا۔جو اس مملکت خدادا کے لیے کی گئی بلندی سے دیکھا جائے تو کھلے ہوئے پھول کی مانند ہوں پانچ کونی ستارہ ایک روشن اور پر امید مستقبل کی امید دلاتا ہے۔جگمگاتا گنبد عالم اسلام کی سرداری کا تاج ہے کل ملا کر انیس تختیاں نصب ہیں ۔گولائی کی تختیوں پہ اسمہ الحسنہ درج ہیں۔ دیواریں قرآنی آیات سے مزین ہیں اردو، ہندی اور بنگلہ زبان میں قرارداد تیں تختیوں پہ درج کی گئی ہے۔

سنگ مرمر کی سلوں پہ قائداعظم کی تقاریر کے اقتباسات، اور شاعر مشرق کی نظم درج ہے۔ایک تختی پہ قومی ترانہ جبکہ صدر دروازے کی تختی پہ اللہ اکبر کنندہ ہے۔گورنر مغربی پاکستان اختر حسین کے ہاتھوں میرا سنگ بنیاد رکھا گیا اور انہی کی تجویز پہ تعمیراتی خرچ کی رقم جو تقریبا ستر لاکھ تھی۔ گھڑدور اور سینما گھروں پہ اضافی ٹیکس لگا لر وصول کی گئی کیونکہ کمیٹی کا خیال تھا کہ تعمیراتی رقم کسی قرض یا خیرات سے حاصل نہیں کرنی۔جگہ کے لیے لاہور کا انتخاب یقینا دو بڑی وجوہات کا نتیجہ تھاایک تو یہ کہ یہ قرارداد لاہور میں منظور ہوئی۔

دوسرا اس شہر کی تاریخی اہمیت کو دیکھتے ہوئے کیاگیا تھا۔جتنی بھی انقلابی، ادبی یا تعلیمی تحریکیں اٹھیں اسی زندہ دلان لاہور سے اٹھیں میں کوئی یادگار نہیں ہوں!یادگار کا عام تصور یہ ہے کہ ایسی نشانی جو مرنے کے بعد باقی رہےمیں ایک حقیقت ہوں!زندہ و جاوید حقیقت!منصوبے کے وقت یادگار کے لفظ کو اسی بنا ء پر خارج کر دیا گیا تھالیکن افسوس کہ مجھے ابھی بھی یادگار پاکستان کہہ کر بلایا جاتا ہے۔مجھے خاموش نہ سمجھا جائےمیں ان تمام قربانیوں کا جواب مانگتا ہو ں جو آپ کے لیے ان آزاد فضاؤں کے بدلے میں آپ کے بڑوں نے دیں تختیوں پہ لکھا ۔شاعر مشرق کا پیغام آپ سے تقاضا کرتا ہے کہ اس عرض پاک کی ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔یہ!! اقبال کا خواب اور قائد کا پاکستان ہے۔


ثنا امجد کونٹینٹ کری ایٹر اور بلاگر ہیں، معاشرتی امور جن میں بچوں کے حقوق ،ویمن رائٹس اور پیرنٹنگ سے جڑے معاملات  میں  خاص دلچسپی رکھتی ہیں۔