بلوچستان: جائیداد میں خواتین کو حصہ دینے کے حکم کا خیرمقدم

بلوچستان ہائی کورٹ نے اپنے ایک اہم فیصلے میں قرار دیا ہے کہ صوبے بھر میں کہیں بھی جائیداد کی سیٹلمنٹ کا عمل اس وقت تک نہیں کیا جائے گا، جب تک یہ یقین دہانی نہ ہو جائے کہ خواتین وارثوں کے نام اس میں شامل کر لیے گئے ہیں اور اگر کسی خاندان میں کوئی خاتون نہیں ہے تو ریونیو حکام متعلقہ تفصیلات میں خاص طور پر اس کا ذکر کریں گے۔بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس کامران ملاخیل پر مشتمل دو رکنی بینچ نے معروف قانون دان ساجد ترین کی طرف سے دائر پٹیشن پر یہ فیصلہ سنایا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا’’وراثت میں پہلے تمام شیئر ہولڈرز بشمول خواتین کے نام منتقل کیے جائیں اور اس کے بعد انتقال کی کارروائی کی جائے۔ اگر خواتین کا نام شامل نہ کیا گیا تو انتقال کا سارا عمل کالعدم ہوجائے گا۔حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ ’ڈائریکٹر جنرل نادرا کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ متعلقہ ضلع/ تحصیل کے ریونیو آفس میں رجوع کرنے/ درخواست دینے والوں کے لیے خصوصی ڈیسک قائم کریں، جو اس متوفی کا شجرہ نسب فراہم کرے گا۔‘

عدالت نے ڈی جی نادرا کو یہ حکم بھی دیا کہ ’وہ رجسٹریشن ٹریک سسٹم کے ذریعے قانونی وارث خاتون کی شادی کے بعد ان کے شوہر کے شجرہ نسب میں نام کی شمولیت کو یقینی بنائیں اور خواتین کو ان کے قانونی حق سے کسی بھی طرح محروم رکھنے سے بچانے کے لیے والد کی طرف سے بھی شجرہ نسب فراہم کرے۔دو رکنی بینچ نے فیصلہ سناتے ہوئے ریمارکس دیے ’قبل اس کے کہ ہم فیصلے کی طرف جائیں یہ بات ہمیں نوٹ کر لینی چاہیے کہ ہم اکیسویں صدی کا حصہ اور تعلیم یافتہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی تقریباً ہر فرد نے خواتین شیئر ہولڈرز کو ان کے حق وراثت سے محروم رکھنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔’اب وقت آگیا ہے کہ ہم ہر فرد کے حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے اس عمل کی حوصلہ شکنی کریں اور اسے روکیں۔

عدالت عالیہ نے کہا: ’کسی بھی خاتون حصہ دار کو اس کے حق سے دستبرداری نامہ/ تحفے، دلہن کا تحفے، نگہداشت الاؤنس، کسی مخلوط معاوضے میں کیش کی ادائیگی یا کسی بھی ذریعے سے اس کے متوفی مورث کی جائیداد سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ اگر ان وجوہات یا کسی بھی طرح خاتون وارث کو میراث سے محروم کیا گیا تو انتقال کا وہ سارا عمل کالعدم ہو جائے گا۔‘

فیصلے میں کہا گیا: ’سیکریٹری/ سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو اس ضمن میں یہ بات نہ صرف یقینی بنائیں گے بلکہ اپنے ماتحت ریونیو /سیٹلمنٹ اہلکاروں کو بھی اس کی ہدایت کریں گے کہ کسی بھی علاقے میں سیٹلمنٹ آپریشن شروع کرنے سے قبل مطلوبہ علاقے کی مقامی زبان اور اردو میں کتابچہ/ ہینڈبلز، گرلز سکولوں، کالجز، ہسپتالوں میں لیڈی کانسٹیبل یا لیڈی ٹیچر یا متعلقہ بنیادی صحت مرکز ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کی نرس یا مڈ وائف کے ذریعے تقسیم کرائیں گے۔سیٹلمنٹ والے علاقوں کے متعلقہ ڈپٹی کمشنرز کو بھی حکم دیا جائے کہ وہ ان علاقوں کی نہ صرف مساجد اور مدرسوں میں لاؤڈ سپیکرز کے ذریعے اعلان کروائیں بلکہ سیٹلمنٹ آپریشن والے مقررہ علاقوں کی حدود میں نقاروں کے ذریعے گلیوں اور قرب و جوار میں بھی اعلانات کروائیں۔

سکریٹری/ ممبر بورڈ آف ریونیو کو مزید حکم دیا گیا کہ وہ ایڈیشنل سیکرٹری رینک کے افسر کی نگرانی میں ریونیو آفس میں ایک شکایت سیل قائم کریں گے تاکہ سیٹلمنٹ آپریشن و وراثت کے عمل میں غیر ضروری تاخیر سے بچا جا سکے اور اس کے ذریعے غیر قانونی مراعات کے امکان کو بھی رد کیا جا سکے۔

عدالت نے کہا: ’سول کورٹ کو بھی حکم دیا جاتا ہے کہ وراثت سے متعلق دائر زیرالتوا مقدمات کا فیصلہ اس حکم کے موصول ہونے کے تین ماہ کے اندر اندر کر دیا جائے یا پھر زیر التوا کیسز کے لیے یہ مدت چھ ماہ سے زائد نہیں ہونی چاہیے جب کہ اگر کوئی نیا مقدمہ قائم ہوتا ہے تو اسے بطور وراثت کا مقدمہ/اپیل/ رویژن/ پٹیشن درج کیا جائے اور اس کا فیصلہ تین ماہ میں بغیر مزید وقت دے کر کر دیا جائے۔