"کمیشن کہ رہا ہے پنجاب حکومت رانا ثنا اللہ چلا رہے تھے وہی ذمہ دار ہیں، حلف کی خلاف ورزی کس نے کی یہ نہیں بتایا کمیشن نے، کمیشن کیسے کہہ سکتا کہ مظاہرین کو پنجاب میں روکنا چاہیے تھا؟"

اسلام آباد (رم نیوز) سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس کی سماعت میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ کمیشن کہ رہا ہے پنجاب حکومت رانا ثنا اللہ چلا رہے تھے وہی ذمہ دار ہیں، حلف کی خلاف ورزی کس نے کی یہ نہیں بتایا کمیشن نے، کمیشن کیسے کہہ سکتا کہ مظاہرین کو پنجاب میں روکنا چاہیے تھا؟ پرامن احتجاج کرنا ہر شہری کا حق ہے، مجھے معلوم نہیں کمیشن کو کس بات کا خوف تھا، انکوائری کمیشن کو لگتا ہے پنجاب حکومت سے کوئی بغض ہے۔

اٹارنی جنرل نے دلیل دی کہ کمیشن کا سارا فوکس صرف اس بات پر تھا کہ پنجاب سے اسلام آباد کیوں آنے دیا؟۔جسٹس عرفان سعادت خان نے ریمارکس دیے کہ کمیشن نے سارا نزلہ پنجاب حکومت پر گرایا ہے، چیف جسٹس نے کہا کمیشن نے مداخلت نہ کرنے پر ساری رپورٹ پنجاب حکومت کیخلاف لکھ دی ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ مان لیتے ہیں پتھر بھی پنجاب سرکار نے مارے تھے، مان لیتے ہیں گاڑیاں بھی پنجاب سرکاری نے جلائی تھی، اس وقت پنجاب میں کس کی حکومت تھی؟

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اس وقت شہباز شریف وزیر اعلی تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ رپورٹ میں آئی جی پنجاب کی بات کی گئی ہے، ایسا لگتا ہے کہ آئی جی کے ساتھ کوئی پرانی مخاصمت تھی تاکہ سکور برابر ہو۔اٹارنی جنرل نے دلیل دی کہ کمیشن کا سارا فوکس صرف اس بات پر تھا کہ پنجاب سے اسلام آباد کیوں آنے دیا؟۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن کی رپورٹ بذریعہ اٹارنی جنرل آفس سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی تھی۔