پاک، انڈیا تعلقات: امارات ثالثی کا ’رسک‘ کیوں لے رہا ہے؟



فروری 2019 میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع پلوامہ میں ہونے والا شدت پسندوں کا حملہ جنوبی ایشیا کی دو ایٹمی طاقتوں، پاکستان اور انڈیا، کو جنگ کے بہت قریب لے آیا تھا۔ اس حملے میں کم از کم 40 انڈین فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔چند مہینوں بعد، اُسی سال یعنی پانچ اگست 2019 کو انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کر دیا اور کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا۔ اس واقعے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان پہلے سے کشیدہ تعلقات مزید تلخ ہوتے گئے۔لیکن گذشتہ دو مہینوں کے دوران اچانک برف پگھلنا شروع ہوئی ہے۔ اس کا پہلا اشارہ رواں برس 25 فروری کو اُس وقت سامنے آیا جب دونوں ممالک کے فوجی حکام کے مابین ایک غیر معمولی ملاقات میں کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر 2003 میں فائر بندی کے معاہدے کی پاسداری کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔پھر مارچ کے وسط میں اس خیال کو مزید تقویت ملی جب پاکستان آرمی کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے ’پُرامن طریقے‘ سے ماضی کے تنازعات کو دفن کر کے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی بات کی گئی۔

اس کے فوراً بعد پاکستان نے انڈیا پر سے کپاس اور چینی کی درآمد پر لگی ہوئی پابندی ختم کرنے کا اعلان کیا (اس اعلان کو بعد میں واپس لے لیا گیا)۔ اس کے بعد جب پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی تو انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے انھیں جلد صحتیابی کا پیغام بھیجا۔ایک ایک کر کے متعدد ذرائع ابلاغ میں ایسی خبریں آنا شروع ہو گئیں کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان خفیہ رابطے اور بات چیت کا آغاز ہو چکا ہے جس کی ثالثی متحدہ عرب امارات کر رہا ہے۔جب متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ مارچ میں اچانک دہلی گئے تو سرگوشیوں نے مزید زور پکڑا۔یہ بھی اطلاع ہے کہ دونوں ممالک کے انٹیلی جنس اہلکاروں نے جنوری میں دبئی میں ایک خفیہ میٹنگ کی تھی۔بالآخر 15 اپریل کو امریکہ میں متحدہ عرب امارات کے سفیر يوسف العتيبہ نے اس کے متعلق بتا ہی دیا۔ انھوں نے سٹینفورڈ یونیورسٹی میں ہونے والی ایک ورچوئل گفتگو میں کہا کہ متحدہ عرب امارات نے کشمیر پر انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

متحدہ عرب امارات کے سفیر نے کہا کہ انھیں امید ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان تعلقات اب ایک ’صحت مند‘ مرحلے پر پہنچ جائیں گے جہاں وہ ایک دوسرے سے بات کریں گے اور اپنے اپنے سفیروں کو ایک دوسرے کے دارالحکومتوں میں واپس بھیجیں گے۔ ’ہو سکتا ہے کہ وہ قریبی دوست نہ بنیں، لیکن ہم چاہتے ہیں کہ وہ بات کرنا شروع کر دیں۔متحدہ عرب امارات کے سفیر کے بیان کے تین دن بعد انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جیا شنکر اور پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ابو ظہبی بھی گئے۔ تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ متحدہ عرب امارات نے انڈیا اور پاکستان کے مابین امن قائم کرنے میں کیا کردار ادا کیا ہے۔سوال یہ ہے کہ اس چھوٹی سی خلیجی ریاست نے اس انتہائی مشکل کام کی ذمہ داری کیوں اٹھائی ہے؟ یہ ان دو بڑے ممالک پر کتنا اثر رکھتی ہے؟

قدیم یونان میں سپارٹا نامی شہر اپنی فوجی صلاحیت کے سبب ایک خاص شہرت رکھتا تھا۔ امریکہ کے سابق وزیرِ دفاع جم میٹیس نے متحدہ عرب امارات کے فوجی عزائم کو دیکھتے ہوئے اسے ’لٹل سپارٹا‘ کا نام دیا ہے۔یہ چھوٹا سا خلیجی ملک یمن سے لے کر افغانستان، لیبیا اور مشرقی افریقہ میں ہونے والی فوجی کارروائیوں میں ملوث رہا ہے۔ لیکن گذشتہ کچھ برسوں سے یہ ملک امن کے لیے ثالثی کرنے والی ریاست کی شبیہہ بننے کی کوشش کر رہا ہے۔اس کے پیچھے اصل طاقت ابو ظہبی کے طاقتور شہزادے محمد بن زید کی ہے۔

2016 میں متحدہ عرب امارات نے ایتھوپیا اور اریٹیریا کے درمیان امن کے قیام میں کردار ادا کیا تھا۔ اس نے ایتھوپیا اور سوڈان کے درمیان سرحدی تنازع کو حل کرنے کے لیے ثالثی کی تھی۔ اس نے دریائے نیل پر ایک ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے ایتھوپیا اور مصر کے درمیان تنازع کو حل کرنے میں بھی اپنا کردار ادا کیا تھا۔

کسی زمانے میں متحدہ عرب امارات، لیبیا میں ملیشیا کے رہنما خلیفہ ہفتار کو ہتھیار سپلائی کرنے والوں میں ایک اہم ملک تھا۔ اب وہ وہاں کسی سیاسی حل کی بات کر رہا ہے۔ یقیناً انھوں نے یہ راستہ ترکی کی لیبیا میں فوجی مداخلت کے بعد ہی اختیار کیا ہے۔ متحدہ عرب امارات نے یمن میں اپنی فوجی سرگرمیاں بھی کم کر دی ہیں۔ انڈیا اور پاکستان کو قریب لانے کے لیے ثالثی کا کردار ادا کرنے کا فیصلہ متحدہ عرب امارات کا اب تک کا سب سے بڑا امن منصوبہ ہے۔

لندن کے ایک تھنک ٹینک انٹرنیشنل انٹرسٹس کے پولیٹیکل رسک کے شعبے کے سربراہ اور مشرق وسطیٰ کے سیاسی تجزیہ کار سمیع حامدی کہتے ہیں کہ متحدہ عرب امارات اب قطر کی طرح دنیا میں امن کی شبیہہ قائم کرنے کا خواہشمند ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ’متحدہ عرب امارات یہ دکھانا چاہتا ہے کہ وہ ایک جدید، طاقتور لبرل ریاست ہے جو دنیا میں امن قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے، اور اس کا اثر و رسوخ اور قبولیت اب اس قدر زیادہ ہو گئی ہے کہ وہ پاکستان اور انڈیا جیسے دو جوہری مسلح ممالک کے درمیان تنازعات کے حل میں بھی اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔سمیع حامدی نے بتایا کہ متحدہ عرب امارات کے لیے سب سے اہم اس کی اپنی ’ساکھ‘ اور ’وقار‘ ہے، چاہے ان کی ثالثی کے ذریعہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان امن قائم ہو یا نہ ہو۔اسی وجہ سے آپ دیکھ سکتے ہیں کہ بقول متحدہ عرب امارات انڈیا اور نہ ہی پاکستان نے انھیں مذاکرات کے آغاز یا کسی تیسرے فریق کی ثالثی سے آگاہ کیا ہے۔تاہم مسٹر حامدی مانتے ہیں کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان دشمنی کو کم کرنے کے حوالے سے متحدہ عرب امارات کے کچھ اپنے جغرافیائی سیاسی مفادات ہیں۔متحدہ عرب امارات کو تشویش ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد وہاں ترکی کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اسی لیے پاکستان کو ان کی ضرورت ہے۔ ہو سکتا ہے کہ متحدہ عرب امارات سوچ رہا ہو کہ اگر وہ کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کے ساتھ تعاون کرتا ہے تو یہ اعتماد حاصل کرنا آسان ہو گا۔‘

مشرق وسطیٰ کی سیاست کے ماہر اور واشنگٹن میں عرب گلف سٹیٹس انسٹیٹیوٹ کے ایک محقق حسین ابیش نے بلومبرگ میگزین میں چھپنے والے کے ایک تجزیے میں لکھا ہے کہ متحدہ عرب امارات خود مسئلہ کشمیر کے بارے میں ایک ’حقیقت پسندانہ‘ تفہیم چاہتا ہے۔بہت سے ریڈیکل اسلام پسند اور دہشت گرد گروہ کشمیریوں کی حالت زار کو اجاگر کرتے ہوئے عام مسلمانوں کے جذبات کو ابھارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ متحدہ عرب امارات ان گروہوں کو اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے۔ لہذا مسئلہ کشمیر کے قابل قبول حل کی تلاش میں اس کا بھی مفاد ہے۔دہلی کی جواہر لال یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر سنجے بھردواج کے مطابق انھیں بھی ابتدائی طور پر متحدہ عرب امارات کی ثالثی کے بارے میں جان کر حیرت ہوئی تھی، کیوںکہ انڈیا نے کبھی کشمیر یا پاکستان کے ساتھ مذاکرات میں کسی تیسرے فریق کی ثالثی کی پیش کش قبول ہی نہیں کی۔