پاکستان بمقابلہ ویسٹ انڈیز،کس کاپلڑا بھاری؟

1958ء سے لے کر آج تک پاکستان اور ویسٹ انڈیز کی ٹیموں کے درمیان 17 ٹیسٹ سیریز ہو چکی ہیں جن میں سے 6 سیریز میں پاکستان کا پلڑا بھاری رہا جبکہ ونڈیز کی ٹیم 5 سیریز جیت سکی ہے۔دونوں ٹیموں کے درمیان کل 52 ٹیسٹ میچز کھیلے گئے جن میں سے پاکستان نے 20 میچز جیتے اور ونڈیز کی ٹیم 17 میں فاتح رہی۔ویسٹ انڈیز کی ٹیم کسی زمانے میں دنیا کی ٹاپ ٹیم ہوا کرتی تھی لیکن نوجوان نسل کا باسکٹ بال کی طرف رجحان ہونے سے اور ٹیم کی ناقص کارکردگی کے باعث وہاں کرکٹ کا رجحان کم ہوا۔پاکستان کرکٹ کی دورہ ویسٹ انڈیز سے بہت سی یادیں وابستہ ہیں۔

بیٹنگ میں بھی بہت بڑے بڑے نام تھے جن میں ووین رچرڈز کا نام قابل ذکر ہے۔ ان کے علاوہ سر گیری سوبرز، کلائیو لائیڈ، گس لوگی، رچی رچرڈسن، ڈیسمنڈ ہینز، گورڈن گرینج جیسے خطرناک بیٹسمین بھی شامل تھے۔بعد میں کرٹلی ایمبروز، کورٹنی والش اور آئن بشپ نے بائولنگ بہت نام کمایا۔ ویسٹ انڈیز کی ٹیم 1980-84 کے سالوں میں دنیا کی مضبوط ٹیم تھی جب اس نے مسلسل11 ٹیسٹ میچز جیتے تھے۔کلائیو لائیڈ کی قیادت میں کھیلنے والی اس ٹیم کو پھر ٹی ٹوئنٹی میں ہی عروج حاصل ہوا اور اس کے بہت سے کھلاڑی دنیا بھر کی لیگز میں کھیلنے لگے۔ اس ٹیم کیلئے ایک عشرہ1970 سے لیکر 1980تک یادگار تھا کیونکہ اس عشرے کے دوران وہ ایک مضبوط حریف تھی اور دنیا ئے ٹیسٹ کرکٹ کی ٹاپ ٹیم شمار ہوتی تھی۔ اس وقت ونڈیز کو ہرانا ایک ڈرائونا خواب لگتا تھا۔ ٹیسٹ کے ساتھ ساتھ ونڈیز ٹیم ون ڈے کی بھی خطرناک ٹیم رہی۔اسی تباہ کن بائولنگ اور بیٹنگ کی وجہ سے ویسٹ انڈیز کی ٹیم کو’’ کالی آندھی‘‘ کے القاب سے یاد کیا جاتا تھا ۔ ویسٹ انڈیز میں کھیلا جانیوالا ایک ون ڈے میچ بہت یادگار رہے گا۔ یہ ون ڈے سیریز1993 میں کھیلی گئی جو کہ پانچ میچز پر مشتمل تھی ، پہلے دو میچز ویسٹ انڈیز نے جیتے اور اس کے بعد دو لگاتار میچز پاکستان کے حصے میں آئے۔آخری اور پانچویں میچ میں سیریز کا فیصلہ ہونا تھا کہ یہ میچ اعصاب شکن ثابت ہوا اور ٹائی ہوگیا۔اس سیریز میں وسیم اکرم نے کپتانی کی تھی۔ اور ان دنوں میں وسیم اکرم اور وقار یونس کی تباہ کن بائولنگ مشہور تھی ۔ ان کے ساتھ جس کھلاڑی نے یاد گار اورز کرائے وہ عامر نذیر تھے انہوں نے برائن لارا کو ایک نہایت سوئنگ یارکر گیند پر بولڈ کرکے سب کو حیران کردیا تھا۔ یہ پانچواں اور آخری میچ جارج ٹائون میں کھیلا گیا تھا۔

پاکستان نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے مقررہ پچاس اوورز میں244 رنز بنائے تھے جواب میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم بھی پانچ وکٹوں پر مقررہ اوورز میں244 رنز بنا سکی تھی۔ اس میچ میں کارل ہوپر اور ڈیسمنڈ ہینز نے پاکستانی بائولرز کا ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا اور خاص طور پر کارل ہوپر میچ کو ٹائی کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ عامر نذیر نے اس میچ میں بہت عمدہ لائن اینڈ لینتھ سے بائولنگ کرائی تھی جس کی بدولت ونڈیز بلے باز کھل کر نہ کھیل سکے تھے۔اس طرح یہ ون ڈے سیریز ڈرا ہوگئی تھی۔ پاکستان نے پہلی ون ڈے سیریز ویسٹ انڈیز کی سرزمین پر 2005 میں جیتی۔ پاکستان نے 2011 اور2017 میں ون ڈے سیریز جیتیں۔

2000کی سیریز بھی یادگار تھی کیونکہ اس سیریز میں اگرچہ پاکستان کامیابی حاصل نہیں کرسکا تھا لیکن بھر پور مزاحمت دکھاتے ہوئے پانچ میں سے دو میچ جیت لئے تھے۔ اس وقت پاکستان ٹیم کے کپتان معین خان تھے۔ پاکستان نے پورٹ آف سپین اور برج ٹائون کے میچز جیتے تھے۔2017 میں پاکستان نے ویسٹ انڈیز کی سرزمین پر ٹیسٹ سیریز جیت کر نئی تاریخ رقم کی تھی۔پاکستان نے ویسٹ انڈیز کو ٹیسٹ سیریز کے تیسرے اور آخری کرکٹ میچ میں سنسنی خیز مقابلے کے بعد 101 رنز سے شکست دی۔

ویسٹ انڈیز کی طرف سے جو بیٹسمین پاکستان کے خلاف زیادہ چلتے تھے ان میں ڈیسمنڈ ہینز، ووین رچرڈ اور برائن لارا شامل تھے جبکہ پاکستان کی طرف سے جاوید میانداد ایک آہنی دیوار ثابت ہوتے تھے۔ ماضی میں بائولنگ میں پاکستان کی طرف سے وسیم اکرم اور وقار یونس کامیاب بائولر رہے جبکہ ویسٹ انڈیز کی طرف سے کرٹلی ایمبروز اور کورٹنی واش نے پاکستانی بیٹسمینوں کو خاصا پریشان کیا۔ پاکستان نے اپنا پہلا ٹیسٹ میچ ویسٹ انڈیز کی سرزمین پر میں جیتا ۔ اگرچہ سیریز میں کامیاب نہیں ہوئے لیکن یہ ٹیسٹ میچ جیتنا پاکستان کیلئے یادگار تھا۔ یہ یادگار میچ پورٹ آف سپین میں کھیلا گیا تھا جس کی قیادت پاکستان کی طرف سے عبدالحفیظ کاردار نے کی تھی جبکہ ونڈیز کی طرف سے کپتان گیرالیگزینڈر تھے۔ یہ میچ پاکستان نے ایک اننگز اور ایک رن سے جیت لیا تھا۔ایک اور یادگار میچ جو پاکستان نے ویسٹ انڈیز میں جیتا وہ اپریل 1977 میں کھیلاجانیوالا سیریز کا چوتھا ٹیسٹ میچ تھا۔ اس وقت ویسٹ انڈیز کی ٹیم بہت مضبوط تھی اور اس کے خلاف میچ جیتنا ایسے ہی ہے جیسے آج کل آسٹریلیا یا نیوزی لینڈ کو اس کی سرزمین پر ٹیسٹ میچ ہرانا مشکل ہے۔ اس ٹیم میں اس وقت اینڈی رابرٹس، جوئیل گارنر، فریڈرک، کولن کرافٹ، ووین رچرڈ، گورڈن گرینج، ڈیریک مرے اور کلائیولائیڈ شامل تھے ۔ اس وقت ویسٹ انڈیز کیخلاف ٹیسٹ میچ ڈرا کرنا ہی بہادری سمجھا جاتا تھا لیکن پاکستان کی بھی ایک مضبوط ٹیم تھی جو ہمیشہ ونڈیز کو ٹف ٹائم دیا کرتی تھی ۔ یہ میچ پاکستان نے 266رنز سے جیت لیا تھا۔ پاکستان نے اس سیریز میں دو میچز ڈرا کھیلے ۔ پاکستان نے اس میچ میں ویسٹ انڈیز جیسی مضبوط بائولنگ کیخلاف پہلی اننگز میں 341 رنز بنائے تھے جس میں کپتان مشتاق محمد کی شاندار سنچری شامل تھی۔ ماجد خان نے بھی اچھے کھیل کا مظاہرہ کیا تھا۔ پاکستان کی بائولنگ عمران خان، سرفراز نواز، اقبال قاسم ، مشتاق محمد اور وسیم راجہ پر مشتمل تھی۔ پاکستان نے پہلی اننگز میں تباہ کن بائولنگ کرائی اور ونڈیز کو صرف 152رنز پر آئوٹ کردیا۔ اس میچ میں مشتاق محمد کامیاب ترین بائولر رہے تھے۔ مشتاق محمد اس میچ میں مین آف دی میچ بھی قرار پائے ۔ انہوںنے ناصرف بیٹنگ میں زبردست کارکردگی کا مظاہرہ کیا بلکہ اچھی بائولنگ بھی کرائی۔

سب سے اہم بات ویسٹ انڈیز کے کرکٹ سٹیڈیمز کی خوبصورتی ہے ۔ یہ سٹیڈیمز جہاں ناصرف خوبصورت قدرتی مناظر کے درمیان بنائے گئے ہیں وہاں ساحل سمندر بھی بہت خوبصورت ہیں۔ ڈیرن سیمی کرکٹ سٹیڈیم ویسٹ انڈیزکے انتہائی خوبصورت سٹیڈیمز میں سے ایک ہے اور یہ خوبصورت پہاڑیوں کے سنگم پر واقع ہے ۔ پہاڑی سلسلوں میں موجود گھر ، ساحل سمندر اور سبزہ اسے دنیا کے دوسرے ممالک سے ممتاز کرتا ہے ۔