انتخابات پر از خود نوٹس کیس۔۔۔۔سیاسی جماعتو ں کو باہمی مشاورت کاحکم۔۔۔سپریم کورٹ نے رائے طلب کرلی

اسلام آباد(رم نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان میں پنجاب اور خیبر پختونخوا کے انتخابات میں تاخیر سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت میں سپریم کورٹ کا انتخابات کی تاریخ کیلئے سیاسی جماعتوں کو مشاورت کا حکم دیاگیا ہے۔ سپریم کورٹ نے انتخابات کی تاریخ کیلئے سیاسی جماعتوں بالخصوص حکومت اور پی ٹی آئی کوباہمی مشاورت سے ایک تاریخ دینے کا مشورہ دیاہے۔ اس وجہ سے سماعت میں چار بجے تک کا وقفہ کردیاگیا ہے۔چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بنچ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔

عام انتخابات کےمعاملے میں تاریخ کے اجراء میں تاخیر کے تنازع سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت میں 4 معزز جج صاحبان نے خود کو لارجر بنچ سے الگ کر لیاتھا جس کے بعد بنچ ٹوٹ گیا تھا۔

سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے دلائل دیئے عدالتی حکم پر سپریم کورٹ بار کے صدر کا نام نکال دیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ بار ادارہ ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے عدالت میں جو لکھوایا جاتا ہے وہ حکم نامہ نہیں ہوتا،ججزجب دستخط کریں تو حکم نامہ بنتا ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیاصدر اور گورنر معاملہ میں کابینہ کی ایڈوائس کے پابند ہیں۔ کیا الیکشن کی تاریخ صدر اور گورنرز اپنے طور پر دے سکتے ہیں؟ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیئے کہ نگران حکومت کی تعیناتی اور الیکشن کی تاریخ پر گورنر کسی کی ایڈوائس کا پابند نہیں۔ اس پر سپریم کورٹ بار کے صدر عابد زبیری نے اپنے دلائل شروع کئے۔ آج سماعت میںاٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ بارکے صدر عابد زبیری پر اعتراض اٹھایاتھا،اٹارنی جنرل کا کہنا تھاعدالتی حکم سے سپریم کورٹ بار صدر کا نام نکالا گیا تھا۔

عابد زبیری نے اپنے دلائل میں کہا سپریم کورٹ ماضی میں قرار دے چکی ہےانتخابات 90 دن میں ہی ہونے ہیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہاآئین کےتحت صدر اور گورنر فیصلے میں کابینہ کی ایڈوائس کے پابند ہیں، کیا الیکشن کی تاریخ صدر اور گورنر اپنے طور پر دے سکتے ہیں؟۔چیف جسٹس نے کہا آئین کےتحت نگران حکومت کی تعیناتی ا ور الیکشن کی تاریخ پرگورنر ایڈوائس کا پابند نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے سوال کیا اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن کون کرےگا؟ اس پر عابد زبیری نے جواب دیا کہ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کا نوٹیفکیشن سیکرٹری قانون نے جاری کیا۔جسٹس منیب اختر نے کہا90 دن کا وقت اسمبلی تحلیل کےساتھ شروع ہوجاتا ہے، اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد وقت ضائع کرنےکی کیا ضرورت ہے؟۔جسٹس منصورعلی شاہ نے سوال کیاکیا نگران وزیراعلیٰ الیکشن کی تاریخ کی ایڈوائس گورنرکو دے سکتا ہے؟ عابد زبیری نے جواب دیاالیکشن کی تاریخ اور نگران حکومت ایک ساتھ قائم ہوتی ہے۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے سوال کیا کیا گورنر نگران حکومت کی ایڈوائس مسترد کرسکتا ہے؟ عابد زبیری نے کہا نگران حکومت کاکام تاریخ دینا نہیں، حکومتی امور سنبھالنا ہے، الیکشن کی تاریخ دینےکا اختیار گورنرکا ہے، وزیراعلیٰ کا نہیں ہے۔ سیف اللہ کیس میں 12 ججز نے انتخاب کا عمل لازمی قرار دیا تھا، آئین میں اسمبلی کی تحلیل کے 4 طریقے بتائے گئے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ حکومت آئینی ذمہ داری پوری نہیں کر رہی؟ 90 دنوں میں الیکشن کرانا آئین کی روح ہے، اٹارنی جنرل سے کہیں گے آئینی نکات پر معاونت کریں۔چیف جسٹس نے کہا کہ دوسرےفریق کو سن کرفیصلہ کریں گےکہ صدرکو مشاورت کی ضرورت ہے یا نہیں۔

وکیل عابد زبیری نےکہا گورنر الیکشن کی تاریخ دینے میں ایڈوائس کا پابند نہیں، گورنر والا ہی اختیار صدر کو بھی دیا گیا ہے، صدر بھی الیکشن کی تاریخ دینے میں ایڈوائس کا پابند نہیں، جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ گورنر کو اگر ایڈوائس کی جائے تو وہ اس کا پابند ہوگا۔

چیف جسٹس نےکہا لاہور ہائی کورٹ میں انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت 14،14 دن ملتوی ہو رہی ہے، اتنے اہم آئینی سوال پر اتنے لمبے التوا کیوں ہو رہے ہیں؟ تاریخ میں صدر کےکچھ جمہوری کچھ غیر جمہوری اختیارات تھے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اگر صدر انتخابات کی تاریخ نہیں دے سکتے تو سیکشن57 ختم کیوں نہیں کردیتے؟ کیا کسی نے سیکشن57 کو آئین سے متصادم ہونے پر چیلنج کیا؟جسٹس محمد علی مظہر نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا انتخابات کی تاریخ دینا کس کا اختیارہے؟ اس پر ان کا کہنا تھاانتخابات کی تاریخ دینےکا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔