"حکومت نے ججز کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کی"

اسلام آباد(رم نیوز)سپریم کورٹ میں آڈیو لیکس کمیشن کے خلاف درخواستوں پر سماعت میں صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن شعیب شاہین نے دلائل دینا شروع کیے۔ شعیب شاہین نے دلائل دیے کہ کسی بھی حاضر سروس جج کو کمیشن میں تعینات کرنے سے پہلے چیف جسٹس کی مشاورت ضروری ہے۔ شعیب شاہین کا کہناتھا کسی پرائیویٹ شخص کو بھی کمیشن میں لگانے سے پہلے مشاورت ضروری ہے ۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے وفاقی حکومت عدلیہ کے معاملات میں کوارٹرز کا خیال کرے۔ انکوائری کمیشن میں حکومت نے خود ججز تجویز کیے۔اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ ایکٹ 2017 کو چیلنج نہیں کیا گیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے وفاقی حکومت سے گزارش ہے کہ آئین کا احترام کریں۔ آئین کا احترام کرتے ہوے روایات کے مطابق عمل کریں۔ معذرت سے کہتا ہوں حکومت نے ججز کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کی۔سپریم کورٹ اختیارات سے متعلق قانون میں حکومت نے 5ججز کا بینچ بنانے کا کہہ دیا۔ نئے قانون میں اپیل کے لیے 5 سے بھی بڑا بینچ بنانے کا کہہ دیا ۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ان تمام امور کا حل ہو سکتا ہے ، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت مسائل حل کرے تو ہم بھی ریلیف دیں گے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا عدلیہ اصلاحات بل کس کے مشورے سے لایا گیا؟۔ حکومت نے فیملی سمیت ہر مقدمہ ہی کمیٹی کو بھجوا دیا تھا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدلیہ اصلاحات بل میں بھی فل کورٹ کی استدعا کی تھی۔

جسٹس منیب اختر نے کہا ٹیلی فون پر گفتگو کی ٹیپنگ غیر قانونی ہے۔ آرٹیکل 14 کے تحت یہ انسانی وقار کے بھی خلاف ہے۔ اس کیس میں عدلیہ کی آزادی کا بھی سوال ہے۔