اسلا م آباد(رم نیوز ) سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ماضی کو بھول جائیں آج کی بات کریں۔ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے سیکشن 5 میں اپیل کا حق دیا گیا ہے اس پر کیا کہیں گے، اگر ہم نے فل کورٹ پر کیس کا فیصلہ کرلیا اور قانون درست قرار دے دیا تو اپیل کا حق کہاں جائے گا۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ میں اس پر دلائل دوں گا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ خواجہ صاحب، پورا قانون پڑھیں، قوم کا وقت بڑا قیمتی ہے۔ خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ 1980 کے رولز کا حوالہ دینا چاہتا ہوں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملک کی عوام کے 57ہزار مقدمات انصاف کے منتظر ہیں، آپ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون پڑھیں۔ وہ الفاظ استعمال نا کریں جو قانون میں موجود نہیں ہیں۔ خواجہ طارق رحیم نے 1980 کے رولز کا بھی حوالہ دیا۔
جسٹس طارق مسعود نے کہا کہ آپ پہلے قانون پڑھ لیں آپ کی بڑی مہربانی ہوگی جبکہ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ کس رول کا حوالہ دے رہے ہیں۔
چیف جسٹس کا خواجہ طارق رحیم سے استفسار کیا کہ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے 1980 کے رولز خلافِ قانون ہیں؟ ۔ وکیل درخواستگزار خواجہ طارق رحیم نے کہاکہ یہ قانون سازی پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار سے باہر تھی۔چیف جسٹس نے کہاکہ آپ پارلیمنٹ کی قانون سازی کے اختیار کو چیلنج نہ کریں۔کل کوئی بھی قانون ایسا ہو تو آپ اسے ہمارے پاس لے آئیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے خواجہ طارق رحیم سے سوال کیا کہ آپ کے مطابق چیف جسٹس بنچ بنائے تو ٹھیک،اگر چیف جسٹس اور دو سینیئر جج ملکر بنائیں تو غلط ہو گا؟۔جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ خواجہ صاحب آپ کی بحث کیا ہے؟ مجھے آپ کی یہ بات سمجھ آئی ہے کہ اگر یہ سب فل کورٹ کرے تو درست ہے، اگر پارلیمنٹ یہ کام کرے تو غلط ہے، میں آپ کی بات سےیہ سمجھا ہوں۔
وکیل خواجہ طارق رحیم نے کہاکہ فیڈرل لیجسلیٹیو لسٹ کے شیڈول فور کے مطابق سپریم کورٹ اپنے ضوابط خود بناتی ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سپریم کورٹ کو یہ اختیار آئین میں دیا گیا یا قانون میں؟ ۔خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ میں سوالات نوٹ کر رہا ہوں جواب بعد میں دوں گا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیئے کہ خواجہ صاحب آئینی شقوں کو صرف پڑھیں تشریح نہ کریں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ خواجہ صاحب آپ کیا کہہ رہے ہیں قانون بنانا پارلیمان کا دائرہ کار نہیں تھا یا اختیار نہیں تھا۔چیف جسٹس قاضی فائز نے ریمارکس دیے کہ خواجہ صاحب آپ جو ادھر ادھر کی باتیں کر رہے اس پر الگ درخواست لے آئیں۔ابھی اپنی موجودہ درخواست پر فوکس کریں۔