اسلام آباد(رم نیوز)سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دئیے کہ ابھی تک اپ نے کسی آئینی ارٹیکل کا حوالہ نہیں دیا ہے۔ اگر عدلیہ کے حقوق ہر زبردست حملہ تھا تو ہم نے از خود نوٹس تو نہیں لیا۔کسی کا اختیار ختم نہیں کیا گیا صرف تقسیم کیا گیا۔چیف جسٹس کے حقوق کیلئے آپ جنگ لڑ رہے ہو بہت اچھی بات ہے ۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ اپنی رائے دینے کیلئے اخبار میں کالم لکھئے گا یہاں آئینی بات کریں۔بنیادی حقوق پر تو ابھی تک اپ نے بحث کی ہی نہیں۔جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا یہ ایکٹ عوامی مفاد میں لایا گیا یا ذاتی مفاد میں ؟جسٹس جمال خان نے کہاکہ پارلیمان قانون بناتی ہے کیا اسکے اختیار کو محدود کرنا چاہتے ہیں ۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ جہاں رولز بنانے کا اختیار آئین دے کیا پارلیمان ان قواعد میں ترمیم کر سکتی ہے ۔ اب کوئی کیس لائیں چیف جسٹس نہ لگائے اس کی مرضی۔میں موجودہ کیس کو نہیں لگاتا میری مرضی۔اندرونی آزادی کے ساتھ ساتھ احتساب اور شفافیت بھی اہم ہے۔عدلیہ کی آزادی کا یہ مطلب نہیں کہ کسی کیس کو دس سال نہ لگائوں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ یہ قانون تو نظام کو مزید شفاف بنا رہا ہے۔عوام کے لیے آسانی پیدا ہوگئی ہے۔ جسٹس طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ عدالت کو صرف یہ بتائیں اس قانون سے کون سے بنیادی حقوق متاثر ہوئے۔
وکیل امتیاز صدیقی نے کہاکہ اس قانون کے زریعے عوام کے حقوقِ متاثر ہوئے۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ اگر یہ قانون صرف چیف جسٹس کے اختیارات کو کم کرتا ہےتو بھی عوام کے لیے بہتر ہے۔اگر اپیل کا حق دیا جارہا ہے تو بھی عوام لیے بہتر ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ آپ کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ قانون اچھا ہے۔مگر آپ چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ کی بجائے ہمیں خود یہ قانون بنانا چاہیے تھا۔