ایم پوکس ایک انتہائی متعدی بیماری ہے جسے پہلے ’منکی پوکس‘ کے نام سے جانا جاتا تھا اس کی وجہ سے محکمہ صحت نے ایڈوائزری جاری کی ہے۔ این ایچ ایس نے عالمی سطح پر ایم پوکس کے بڑھتے ہوئے کیسز کے پیش نظر اس بیماری کے حوالے سے ایڈوائزری جاری کی ہے۔منکی پاکس کا کیس سامنے آنے کے بعد ملک بھر کے ایئر پورٹس پر نگرانی سخت کی گئی ہے۔حکام کی جانب سے ملک بھر کے ہسپتالوں میں آئیسولیشن وارڈ قائم کرنے اور حفاظتی سامان مہیا کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
اس سے جمہوریہ کانگو میں کم از کم 450 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ایم پوکس کی بیماری منکی پوکس وائرس کی وجہ سے ہوتی ہے۔ یہ چیچک جیسے وائرس کے گروپ سے ہے لیکن کم نقصان دہ ہے۔یہ وائرس اصل میں جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوا تھا لیکن اب انسانوں سے انسانوں کو بھی منتقل ہوتا ہے۔
ایم پاکس کی ابتدائی علامات میں بخار، سر درد، سوجن، کمر درد اور پٹھوں میں درد شامل ہیں۔بخار ٹوٹنے کے بعد دانے پڑ سکتے ہیں جو اکثر چہرے سے شروع ہو کر جسم کے دیگر حصوں میں پھیل جاتے ہیں جن میں عام طور پر ہاتھوں کی ہتھیلیاں اور پیروں کے تلوے شامل ہوتے ہیں۔دانے، جو انتہائی کھجلی والے یا تکلیف دہ ہو سکتے ہیں۔یہ کھجلی تبدیل ہوتے ہوئے مختلف مراحل سے گزرتی ہے اور آخر کار خارش کی شکل اختیار کر جاتی ہے جو بعد میں زخموں کا سبب بن سکتی ہے۔انفیکشن عام طور پر خود بخود ختم ہو جاتا ہے اور 14 سے 21 دن کے درمیان رہتا ہے۔
ایم پوکس کسی متاثرہ شخص کے ساتھ قریبی رابطے کے ذریعے دوسرے افراد میں پھیلتا ہے۔ان رابطوں میں جنسی تعلقات، جلد سے جلد کے رابطے اور کسی دوسرے شخص کے قریب بیٹھ کر بات کرنا یا سانس لینا بھی شامل ہے۔یہ وائرس زخمی جلد، سانس کی نالی یا آنکھوں، ناک یا منہ کے ذریعے جسم میں داخل ہوسکتا ہے۔یہ وائرس سے آلودہ ہونے والی چیزوں کو چھونے سے جیسے بستر، کپڑے اور تولیہ بھی پھیل سکتا ہے۔
2022 میں عالمی وبا کے دوران یہ وائرس زیادہ تر جنسی رابطے کے ذریعے پھیلا تھا۔ایم پوکس کی دو اہم اقسام ہیں،کلیڈ ون اور کلیڈ ٹو۔اس سے پہلے 2022 میں اعلان کردہ ایم پوکس پبلک ہیلتھ ایمرجنسی کلیڈ ٹو کی وجہ سے تھی۔یہ وائرس تقریباً 100 ممالک میں پھیلا جہاں عام طور پریہ وائرس نہیں ہوتے جن میں یورپ اور ایشیا کے کچھ ممالک بھی شامل ہیں لیکن ویکسین دے کر اس پر قابو پا لیا گیا تھا تاہم اس بار یہ کہیں زیادہ مہلک کلیڈ ون ہے۔پچھلے سال ستمبر کے آس پاس وائرس میں تبدیلی آئی تھی۔ تغیرات کے نتیجے میں کلیڈ ون بی نامی ایک قسم سامنے آئی جو اس کے بعد تیزی سے پھیل رہا ہے۔اس نئی قسم کو سائنسدانوں نے ’اب تک کی سب سے خطرناک‘ قسم قرار دیا ہے۔