بیجنگ(رم نیوز)چین نے بھارت کو ایک اور بڑا دھچکا دیتے ہوئے لداخ کے اہم حصے اپنے کنٹرول میں لے لیے ہیں۔ چین نے ہوتان پریفیکچر میں لداخ کے کچھ حصوں کو شامل کر کے دو نئی کاؤنٹیز کے قیام کا اعلان کیا ہے، جس پر بھارتی حکومت نے شدید احتجاج کیا ہے۔
بھارتی وزارت خارجہ نے اس فیصلے پر چین کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرایا، اور یہ پہلا موقع ہے جب بھارت اور چین نے ہمالیائی سرحدی تنازعے پر کھلے طور پر اعتراض کیا ہے۔
چین کا یہ اقدام سرحدی مذاکرات کی دوبارہ بحالی کے بعد سامنے آیا ہے۔ بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول نے گزشتہ ماہ بیجنگ کا دورہ کر کے سرحدی مسائل پر بات چیت کی تھی۔ دسمبر 2024 میں چینی دفاعی ترجمان نے کہا تھا کہ ’’ہم سرحدی علاقوں میں امن قائم رکھنے کے لیے مشترکہ کوششوں کے لیے تیار ہیں۔
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جسوال نے کہا کہ ’’ہوتان پریفیکچر میں قائم کی جانے والی دو نئی کاؤنٹیز کے کچھ حصے لداخ میں شامل ہیں۔‘‘ چینی خبر رساں ادارے کے مطابق، ہیان کاؤنٹی اور ہیکانگ کاؤنٹی کا قیام چینی کمیونسٹ پارٹی اور ریاستی کونسل کی منظوری سے عمل میں آیا ہے۔ ہیان کاؤنٹی کا مرکز ہونگلیو ٹاؤن شپ ہے، جبکہ ہیکانگ کاؤنٹی کا مرکز زیڈولا ٹاؤن شپ ہے۔ ان کاؤنٹیوں میں اکسائی چن کا ایک بڑا حصہ شامل کیا گیا ہے، جس پر بھارت چین کے خلاف غیر قانونی قبضے کا الزام عائد کرتا ہے۔
2020 میں لداخ میں سرحدی کشیدگی کے دوران دونوں ممالک کی فوجوں کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئی تھیں، جن میں کئی بھارتی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تنازعے میں یہ تازہ پیشرفت خطے میں مزید کشیدگی کا باعث بن سکتی ہے۔ چین کا موقف ہے کہ یہ اقدام اس کے قانونی حدود میں آتا ہے اور بھارت کو اس پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔
ماہرین کے مطابق بھارتی وزارت خارجہ کا ردعمل اس بات کا غماز ہے کہ بھارت کو خطے میں اپنی بالادستی کے خواب کو ایک اور بڑا دھچکا لگا ہے، کیونکہ چین نے لداخ کے بعد مقبوضہ کشمیر میں بھی بھارت کے خلاف اپنی کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔