پانی کی تقسیم پر حکومت اور پیپلز پارٹی میں تنازع، سندھ کا پانی روکنے کے الزامات

اسلام آباد(رم نیوز) پاکستان میں پانی کی تقسیم کے حوالے سے وفاقی حکومت اور پیپلز پارٹی کے درمیان شدید اختلافات سامنے آگئے ہیں۔ ایوان بالا کا اجلاس ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سیدال خان کی صدارت میں ہوا، جس میں پیپلز پارٹی نے حکومتی اعداد و شمار کو زمینی حقائق سے مختلف قرار دیتے ہوئے سندھ کے پانی کی بندش کا الزام عائد کیا۔

پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ سندھ کے حصے کا پانی روکنے کے لیے دریائے سندھ پر نئی نہریں بنائی جا رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس مسئلے پر سندھ میں احتجاج بھی ہو رہا ہے اور وزیر اعلی سندھ نے سی ڈی ڈبلیو پی کے اجلاس میں اپنی شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ شیری رحمان نے مزید کہا کہ چولستان کے ریگستان کو ہریالی میں بدلنے کے لیے سندھ کا پانی منتقل کیا جا رہا ہے۔شیری رحمان نے کہا کہ ارسا گزشتہ 25 سال سے پانی کی کمی کی رپورٹ کر رہا ہے اور سندھ اور بلوچستان دونوں صوبے اس تقسیم پر اعتراض کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ "کراچی میں شہری بوند بوند پانی کے لیے ترس رہے ہیں، پانی کی کمی شدت اختیار کر چکی ہے۔"

پیپلز پارٹی کی رہنما نے یہ بھی کہا کہ 11 ماہ سے مشترکہ مفادات کی کونسل (سی سی آئی) کا اجلاس نہیں ہوا اور حکومت کو اس معاملے پر واضح موقف اختیار کرنا چاہیے۔دوسری جانب مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ پانی کی تقسیم کے موجودہ فارمولے کے تحت ہر صوبے کو اس کا جائز حصہ مل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی اپنے حصے کے پانی سے نہریں بنا رہا ہے تو اس پر اعتراض کرنا بے جا ہے۔ وزیر آبی وسائل مصدق ملک نے اس معاملے پر ایوان میں تفصیلی وضاحت پیش کی اور کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد کسی صوبے کا پانی کم نہیں کیا گیا، اور ہر صوبہ اپنے حصے کے پانی سے نہریں بنانے کا مجاز ہے۔

پی ٹی آئی کے سینیٹر شبلی فراز نے بھی سی سی آئی کے اجلاس کی عدم تشکیل پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی اس مسئلے پر پیپلز پارٹی کی حمایت کرتی ہے۔

پیپلز پارٹی کے سینیٹر نے جنوچی پنجاب میں پی آئی اے کی فلائٹس کی کمی اور ایئرپورٹس کی بندش کا مسئلہ بھی اٹھایا، اور بتایا کہ پیرس جانے والی پی آئی اے کی پہلی فلائٹ میں عملے کے 20 افراد کے مفت سفر کا انکشاف ہوا ہے، جس پر وزیر قانون نے انکوائری کا حکم دیا۔