ڈھاکہ (رم نیوز)بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان حالیہ تجارتی پابندیوں نے دونوں ممالک کے تعلقات میں تناؤ کو مزید بڑھا دیا ہے، جس کا اثر دونوں ملکوں کی معیشتوں پر پڑ سکتا ہے۔گزشتہ ماہ بنگلہ دیش نے بھارت سے سوتی دھاگے کی زمینی راستے سے درآمدات کو محدود کر دیا۔ بنگلہ دیش کا کہنا تھا کہ یہ قدم مقامی صنعتوں کو غیر ملکی سستی مصنوعات کے اثرات سے بچانے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔ اس پابندی کے بعد بھارت نے بنگلہ دیشی مصنوعات کے لیے اپنی بندرگاہوں اور ایئرپورٹس کے راستے بند کرنے کا فیصلہ کیا، جس کی وجہ بھارتی ایئرپورٹس اور بندرگاہوں پر بڑھتا تجارتی رش بتایا گیا۔
یہ تجارتی پابندیاں سیاسی تناؤ کی عکاس ہیں۔ 2024 میں شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے بنگلہ دیش اور بھارت کے تعلقات کشیدہ ہو گئے ہیں۔ شیخ حسینہ کے خلاف مقدمات بنگلہ دیش میں زیرِ التواء ہیں، اور بنگلہ دیش بھارت سے ان کی حوالگی کا مطالبہ بھی کر رہا ہے۔ بھارت نے اس پر اب تک کوئی باضابطہ جواب نہیں دیا۔
بنگلہ دیش کی کپڑا صنعت کو اس صورتحال سے شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ سوتی دھاگہ، جو کہ اس صنعت کے لیے اہم خام مال ہے، اب تک بھارت سے سمندری اور زمینی راستوں سے درآمد کیا جا رہا تھا۔ پابندیوں کے باعث بنگلہ دیشی صنعتکاروں کو مشکلات کا سامنا ہو گا، خصوصاً ان کے لیے جو معروف عالمی برانڈز کے لیے مصنوعات تیار کرتے ہیں۔
بنگلہ دیش کے محمد یونس کے حالیہ دورہ چین پر بھارت میں تشویش پائی جاتی ہے۔ یونس کے بیان میں بھارت کے شمال مشرقی علاقوں کے لیے چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی دلچسپی کا ذکر تھا، جس سے بھارتی حکام میں خوف پیدا ہو گیا ہے کہ یہ علاقائی سیکیورٹی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں حالیہ برسوں میں بہتری دیکھنے کو ملی ہے۔ گزشتہ ماہ پاکستان کی سیکرٹری خارجہ آمنہ بلوچ نے بنگلہ دیش کا دورہ کیا، جو 15 برسوں میں پہلا بڑا دورہ تھا۔ اس کے علاوہ، پاکستان کے نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کا بھی بنگلہ دیش کا دورہ متوقع تھا، لیکن بھارت اور پاکستان کے درمیان بڑھتی کشیدگی کے سبب یہ دورہ ملتوی کر دیا گیا۔
اگرچہ تجارتی پابندیاں اقتصادی تعلقات پر اثرانداز ہو سکتی ہیں، مگر ان کا مقصد سیاسی سطح پر دباؤ بڑھانا بھی ہو سکتا ہے۔ دونوں ممالک کے عوامی جذبات میں تناؤ بڑھ رہا ہے، اور تجزیہ کاروں کے مطابق اگر صورتحال مزید خراب ہوئی تو اس کے سنگین اقتصادی اور سیاسی نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی تجارتی اور سیاسی کشیدگی کے اثرات صرف دونوں ملکوں کی معیشتوں تک محدود نہیں رہیں گے، بلکہ اس سے پورے جنوبی ایشیا کے استحکام پر بھی منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔