اسلام آباد(رم نیوز)سپریم کورٹ میں نور مقدم قتل کیس کی سماعت کے دوران جسٹس ہاشم کاکڑ اور جسٹس علی باقر نجفی نے ظاہر جعفر اور شریک ملزمان کی اپیلوں پر سماعت کی۔دوران سماعت، جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ مقتولہ اور مجرم کے درمیان "ساتھ رہنے" کا رشتہ پاکستان کے سماجی اور مذہبی اقدار سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تعلق مغربی معاشروں میں رائج ہو سکتا ہے، مگر ہمارے معاشرے میں ایسا رشتہ بدقسمتی سمجھا جاتا ہے۔
ظاہر جعفر کے وکیل سلمان صفدر نے مؤقف اپنایا کہ استغاثہ کا مقدمہ صرف سی سی ٹی وی فوٹیج پر مبنی ہے، جس کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھتے ہیں۔ جسٹس کاکڑ نے جواب میں کہا کہ پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق فوٹیج میں کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ نہیں ہوئی، اور یہ شواہد دفاع نے بھی تسلیم کیے ہیں۔عدالت نے شریک ملزمان (چوکیدار اور مالی) کے وکیل سے استفسار کیا کہ ان کے مؤکلان نے مقتولہ کو کیوں نہیں جانے دیا۔ جسٹس نجفی نے ریمارکس دیے کہ اگر انہیں روکا نہ جاتا تو واقعے کا انجام مختلف ہو سکتا تھا۔ وکیل نے کہا کہ ان کے مؤکل صرف موقع پر موجود تھے اور کسی تشدد میں ملوث نہیں تھے۔عدالت نے یہ بھی کہا کہ نور مقدم کی لاش ملزم کے گھر سے برآمد ہوئی، جو جرم کے لیے ایک بڑا ثبوت ہے، چاہے ویڈیو فوٹیج موجود نہ بھی ہو۔
مزید سماعت کے دوران، نور مقدم کے وکیل شاہ خاور نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ واقعے سے متعلق کال ریکارڈ موجود ہے، تاہم مقتولہ کا موبائل فون پولیس نے تحویل میں نہیں لیا۔سپریم کورٹ نے تمام دلائل مکمل ہونے کے بعد کیس کی سماعت ملتوی کر دی، اور آئندہ سماعت کی تاریخ جلد مقرر کیے جانے کا امکان ہے۔