ججز کی سینیارٹی اور ٹرانسفر کیس: 15ویں نمبر کے جج کی ٹرانسفر پر سوال اٹھ گیا

اسلام آباد (رم نیوز) سپریم کورٹ میں ججز کی سینیارٹی اور ٹرانسفر سے متعلق اہم کیس کی سماعت کے دوران جسٹس نعیم اختر افغان نے سوال اٹھایا کہ 14 ججز کو چھوڑ کر 15ویں نمبر کے جج کو کیوں ٹرانسفر کیا گیا؟۔ کیس کی سماعت میں ایڈووکیٹ جنرل پنجاب امجد پرویز نے دلائل مکمل کیے، جن میں انہوں نے بتایا کہ ماضی میں ججز کی سابقہ سروس کو ٹرانسفر کے وقت ہمیشہ تسلیم کیا جاتا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مختلف ادوار میں جب ون یونٹ بنایا گیا یا ہائیکورٹس کو تقسیم کیا گیا، ججز کی سینیارٹی برقرار رکھی گئی۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ ون یونٹ کی صورت میں نئی عدالتی تشکیل ہوئی تھی، جبکہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کے تبادلے پر کوئی نئی تشکیل یا تحلیل نہیں ہوئی۔ انہوں نے اٹارنی جنرل کے موقف کی تصدیق کرتے ہوئے استفسار کیا کہ آرٹیکل 200 کے تحت ججز کا تبادلہ مستقل ہے یا عارضی؟۔ایڈووکیٹ جنرل نے جواب دیا کہ ججز کا تبادلہ مستقل ہوتا ہے اور اس حوالے سے سمری ججز کی جانب سے تیار کی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ جہاں ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کو اضافی جج کی ضرورت ہو وہاں مدت کا ذکر ہوتا ہے، لیکن ٹرانسفر کے معاملے میں تبادلہ مستقل ہوتا ہے۔

جسٹس شکیل احمد نے سوال کیا کہ سمری میں کہیں بھی 'پبلک انٹرسٹ' کا ذکر نہیں، جس پر امجد پرویز نے کہا کہ آرٹیکل 200 میں بھی 'پبلک انٹرسٹ' کا لفظ شامل نہیں ہے۔ایڈووکیٹ جنرل کے دلائل مکمل ہونے پر بانی پاکستان تحریک انصاف کے وکیل ادریس اشرف کو دلائل پیش کرنے کا موقع دیا گیا، تاہم عدالت نے ہدایت کی کہ وہ اپنے دلائل کل تک جاری رکھیں کیونکہ ایڈووکیٹ جنرل کے دلائل کے جواب میں کچھ سوالات پوچھے جا سکتے ہیں۔

عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ادریس اشرف سے پوچھا کہ مزید کتنا وقت درکار ہے، جس پر انہوں نے کہا کہ تقریباً 15 منٹ مزید چاہئیں گے۔ اٹارنی جنرل نے بھی 15 منٹ کا وقت مانگا۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے ذوالفقار علی بھٹو کیس کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں وکلاء کی تاخیری دلائل کی وجہ سے سماعت طویل ہوئی اور ججز ریٹائر ہوتے گئے، جس سے ججز کی کمپوزیشن متاثر ہوئی۔