واشنگٹن (رم نیوز)وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی زیر صدارت ایران کی جوہری تنصیبات پر ممکنہ حملے سے متعلق ایک ہنگامی اجلاس ہوا جو تقریباً ایک گھنٹہ 20 منٹ جاری رہا۔ اجلاس میں اس بات پر غور کیا گیا کہ آیا امریکہ کو اسرائیل کے ساتھ مل کر ایران کے جوہری پروگرام کو نشانہ بنانا چاہیے یا نہیں۔
سی بی ایس نیوز کے مطابق اجلاس میں شریک صدر ٹرمپ کے قریبی مشیروں کے درمیان اس فیصلے پر شدید اختلاف رائے پایا گیا۔ بعض مشیروں نے ممکنہ حملے کی حمایت کی، جبکہ دیگر نے اس اقدام سے باز رہنے کا مشورہ دیا۔ذرائع کے مطابق، کئی روز سے ایران کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوششوں کے بعد صدر ٹرمپ اب اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ کیا امریکہ کو اسرائیل کی ممکنہ کارروائی میں براہِ راست شریک ہونا چاہیے۔
اجلاس میں ممکنہ اہداف پر بھی غور کیا گیا، جن میں فورڈو کی زیر زمین یورینیم افزودگی کی تنصیب سرِ فہرست ہے۔ یہ تنصیب اس قدر محفوظ ہے کہ اسے صرف امریکہ جیسے طاقتور عسکری وسائل رکھنے والے ملک کی مدد سے ہی نقصان پہنچایا جا سکتا ہے۔تاہم، اجلاس کے اختتام تک مشیروں میں متفقہ حکمتِ عملی طے نہ ہو سکی اور آئندہ کے لائحہ عمل پر غور جاری ہے۔
امریکی اور اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے مطابق، اجلاس کے بعد صدر ٹرمپ نے اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو سے ٹیلیفون پر رابطہ کیا، تاہم اس گفتگو کی تفصیلات تاحال منظرِ عام پر نہیں آ سکیں اور بی بی سی نے بھی اس رابطے کی آزادانہ تصدیق نہیں کی ہے۔