’’افغان خواتین کی تعلیم اور ملازمت پر پابندیوں کا کوئی جواز نہیں‘‘

واشنگٹن (رم نیوز)اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے طالبان حکومت کی جانب سے افغانستان میں خواتین پر یونیورسٹیوں کی تعلیم اور امدادی گروپوں (این جی اوز) کے لیے کام کرنے پر پابندی کی مذمت کی ۔ 15 رکنی کونسل نے اتفاق رائےکیا کہ افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے ہائی سکول اور یونیورسٹیوں میں جانے پر پابندی ’انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کی خلاف ورزی ہے۔

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے خواتین اور امدادی تنظیموں پر طالبان کی پابندی کے حوالے سے ٹویٹ کیا کہ یہ ناقابل جواز انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہیں ۔خواتین اور لڑکیوں کو باہر رکھنے اور خاموش کرنے کے اقدامات افغان عوام کی صلاحیتوں کے لیے بہت زیادہ نقصان اور بڑا دھچکا ہیں۔

طالبان حکام کی طرف سے خواتین پر ان پابندیوں کا اعلان ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب نیویارک میں سلامتی کونسل گذشتہ ہفتے افغانستان پر اجلاس میں غور کررہی ہے۔افغانستان میں مارچ سے لڑکیوں کے ہائی سکول جانے پر پابندی عائد ہے۔ گذشتہ ہفتے افغان وزارت برائے اعلیٰ تعلیم نے ایک اعلامیے میں کہا تھا یونیورسٹیوں میں خواتین کی تعلیم حاصل کرنے پر تاحکم ثانی پابندی ہوگی۔24 دسمبر کو طالبان انتظامیہ نے تمام مقامی اور غیر ملکی غیر سرکاری تنظیموں کو بھی حکم دیا تھا کہ وہ خواتین ملازمین کو کام پر آنے سے روک دیں۔

کونسل نے کہا امدادی گروپوں کے لیے کام کرنے والی خواتین کارکنوں پر پابندی سے ملک میں انسانی بنیادوں پر جاری منصوبوں پر اہم اور فوری اثر پڑے گا۔یو این اے ایم اے کے لیے اپنی مکمل حمایت کا اظہار کرتے ہوئے کہاگیا کہ یہ پابندیاں طالبان کی طرف سے افغان عوام کے ساتھ کیے گئے وعدوں کے ساتھ ساتھ عالمی برادری کی توقعات سے بھی متصادم ہیں۔

لاکھوں افغانوں تک انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد فراہم کرنے والے چار بڑے عالمی امدادی گروپوں نے کہا تھا وہ اپنی کارروائیاں اس لیے معطل کر رہے ہیں کیونکہ وہ خواتین عملے کے بغیر اپنے پروگرام چلانے سے قاصر ہیں۔اس سے قبل اقوام متحدہ کے انسانی حقوق مشن کے سربراہ نے خبردار کیاایسی پالیسیوں کے ’خوفناک‘ نتائج برآمد ہوں گے۔