بنگلہ دیش آئی ایم ایف کی نئی سہولیات سے فائدہ اٹھانے والا پہلا ملک بن گیا۔۔۔ بنگلہ دیش آئی ایم ایف سے مدد مانگنے پر کیوں مجبور ہوا؟

ڈھاکہ (رم نیوز)آئی ایم ایف بورڈ نے بنگلہ دیش کے لیے 4.7 بلین ڈالر کے امدادی پروگرام کی منظوری دے دی ہے جس کے بعد بنگلہ دیش آئی ایم ایف کی کئی نئی سہولیات سے فائدہ اٹھانے والا پہلا ملک بن گیا ہے۔بنگلہ دیش کسی زمانے میں جنوبی ایشیا میں سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی معیشت تھا اور صرف دو ہی سال قبل بنگلہ دیش نے جی ڈی پی کے معاملے میں انڈیا کو مات دی تھی۔پھر بنگلہ دیش معاشی بدحالی کا شکار کیوں ہوا اوراسے اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیےآئی ایم ایف سے قرض مانگنا پڑا؟

واضح رہے کہ ایک وقت تھا کہ بنگلہ دیش اپنے زرمبادلہ کے ذخائر پر فخر کرتا تھا لیکن اب اسے ادائیگیوں کے توازن کے بحران کا سامنا ہے۔ بنگلہ دیش کی معیشت کے زوال کی وجہ طویل عرصے سے معاشی تنزلی، اداروں کی کمزوری اور سیاسی مرکزیت ہے۔بنگلہ دیش کی معیشت کو ایک طرح سے خطرہ ہے اور اگر اس کا صحیح طریقے سے انتظام نہ کیا گیا تو وہ دباؤ میں آجائے گی، اگر موجودہ حالات کو درست طریقے سے نہ سنبھالا گیا تو یقیناً بنگلہ دیش کی معیشت مشکلات کا شکار ہو جائے گی۔

معیشت کی تین اکائیوں میں گھریلو آمدن، صنعتی آمدن اور جکومتی آمدن۔ اس وقت بنگلہ دیش میں ان تینوں ہی کو مالی مدد کی ضرورت ہے۔بین الاقوامی سطح پر دیکھا جائے تو ملک میں ادائیگیوں کے توازن کا بحران ہے اور ملک میں آئی ایم ایف کے بنگلہ دیش کو مجوزہ قرض پر بات ہو رہی ہے۔روس یوکرین جنگ سے پہلے ہی بنگلہ دیش کے زرمبادلہ کے ذخائر گرگئے تھے۔ بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمت میں اضافے سے بنگلہ دیش میں بھی مہنگائی بڑھی ہے۔یہ تمام وجوہات بنگلہ دیش میں معاشی بحران کا باعث بن رہی ہیں۔ بنگلہ دیش میں لوگوں کی گھریلو آمدن کم ہو رہی ہے۔کورونا کے دوران بنگلہ دیش میں لوگوں کی آمدن کم ہو گئی اور انہوں نے اخراجات کے لیے قرض لینا شروع کر دیا۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی نے گھرانوں کی معیشت کو تباہ کر دیا اور یہ بحران مزید گہرا ہو گیا۔

گزشتہ سال کی گئی ایک تحقیق کے مطابق بنگلہ دیش کی آبادی میں کل 3 کروڑ 9 لاکھ افراد نئے غریب ہیں جو کل آبادی کا 18.54 فیصد ہیں۔بنگلہ دیش میں زیادہ تر گھرانوں نے اخراجات کو کم کرنے کے لیے خوراک کی خریداری میں کمی کی ہے۔ان لوگوں کی آمدنی اتنی نہیں بڑھی جتنی مہنگائی بڑھی ہے۔ متوسط طبقے کی ایک بڑی آبادی اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے کریڈٹ کارڈز پر انحصار کرنے لگی ہے۔قرضوں کا یہ بحران صرف عام لوگوں تک محدود نہیں ہے۔ حکومت کو بھی اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے قرضہ لینا پڑتا ہے۔اگر ریاستی سطح پر دیکھا جائے تو حکومت نے ریکارڈ سطح پر قرضے لیے ۔بنگلہ دیش کی جی ڈی پی اور ٹیکس کا تناسب جنوبی ایشیا میں سب سے کم ہے۔ یہ بنگلہ دیش کی معیشت کا بنیادی مسئلہ ہے۔ افغانستان کے بعد بنگلہ دیش میں جی ڈی پی-ٹیکس کا تناسب سب سے کم ہے۔

معاشی ماہرین کے مطابق بنگلہ دیش میں معیشت کے انتظام میں بھی مسئلہ ہے۔ 1971 سے لے کر 2017 تک حکومتوں نے جتنابھی قرضہ لیا، موجودہ حکومت نے پچھلے پانچ سالوں میں اتنا قرضہ لے لیا۔دسمبر 2022 میں بنگلہ دیش کے زرمبادلہ کے ذخائر 30 ارب ڈالر تھے۔ جبکہ جنوری 2022 میں یہ 44.9 بلین ڈالر تھا۔بنگلہ دیش کے زرمبادلہ کے ذخائر مسلسل گراوٹ کاشکارہیں۔

اکتوبر 2020 میں یہ اندازے سامنے آئے تھے کہ بنگلہ دیش فی کس جی ڈی پی کے لحاظ سے 2021 میں انڈیا کو پیچھے چھوڑ دے گا۔ جولائی 2021 میں بنگلہ دیش نے جی ڈی پی کی شرح نمو کے لحاظ سے انڈیا کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔تاہم، انڈیا اور بنگلہ دیش کی معیشتوں میں بہت بڑا فرق ہے اور دونوں کے درمیان موازنہ مناسب نہیں ہے۔

بنگلہ دیش کی جی ڈی پی 1960 میں 4 بلین ڈالر تھی، 2021 میں416 بلین ڈالر تک پہنچ گئی۔ 50 برسوں میں بنگلہ دیش کی معیشت میں 100 گنا سے زیادہ اضافہ ہوا۔کورونا اور یوکرین جنگ بنگلہ دیش کی معیشت پر اثرانداز ہوئے۔ اگر بنگلہ دیش کی معاشی حالت خراب ہوتی ہے تو انڈیا کو آگے آنا چاہیے تاکہ بنیاد پرستی کو بڑھنے سے روکا جا ئے۔