اسرائیل فلسطین کے درمیان جنگ بندی پراتفاق عارضی ہے؟۔۔۔آگے کیا ہوگا؟

غزہ(رم نیوز)اسرائیل اور حماس کے درمیان چار روزہ جنگ بندی پراتفاق ہوگیا ہے۔ قطر نے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ میں عارضی وقفے کا اعلان کرتے ہوئے اعلامیہ جاری کیا ہے۔تاہم یہ قیا س آرائیاں جاری ہیں کہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جنگ بندی پر اتفاق عارضی ہے کیونکہ یہ مسئلہ پرانا ہے اوراس کا حل جنگ سے نہیں بلکہ بات چیت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ ذرائع کے مطابق خواتین اور بچوں سمیت 50 یرغمالیوں کو چار دنوں کے دوران رہا کر دیا جائے گا اور اس دوران لڑائی رک جائے گی۔

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے گذشتہ روز کہا تھا کہ تمام ممالک اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی اور فروخت بند کریں۔سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے غزہ میں جاری جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کو مسترد کرتے ہیں ، تمام ممالک غزہ کی تباہ کن صورتحال کو سنجیدہ لیں۔غزہ کے لوگوں کو فوری طور پر امداد کی ضرورت ہے، دونوں فریق بات چیت کے تحت اس مسئلے کا حل نکالیں، غزہ میں حملے فوری طور پر بند کئے جائیں۔

روس سمیت دیگر ممالک کے سربراہان کی جانب سے غزہ میں فوری طور پر جنگ بندی پر زور دیا گیاتھا۔ روسی صدرولادمیر پیوٹن کاکہنا تھا کہ فلسطین اسرائیل تنازع جنگ سے نہیں بلکہ بات چیت سے حل کیا جائے، تنازعات میں انسانی ہمدردی پر جنگ میں وقفے کی فوری ضرورت ہے، تنازع کو حل کرنے میں سیاسی کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔جنوبی افریقن صدرسیرل راما فوسا کاکہنا تھا کہ غزہ پر حملہ کر کے اسرائیل جنگی جرائم کا مرتکب ہو چکا ہے، غزہ میں فلسطینی عوام کی نسل کشی کی جارہی ہے، تمام رہنما غزہ میں جنگ بندی میں کردار ادا کریں۔ سکاٹش فرسٹ منسٹر حمزہ یوسف کاکہنا تھا کہ امید ہے کہ سکاٹش پارلیمنٹ میں بھی غزہ میں جنگ بندی کی تحریک منظور ہو گی۔

گذشتہ روز واشنگٹن میں اسرائیل کے سفیر نے لڑائی میں وفقے کو جنگ بندی کہنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ اسرائیل عارضی جنگ بندی کے خاتمے کے بعد حماس کے اہداف پر دوبارہ حملے شروع کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔واشنگٹن پوسٹ میں گذشتہ ہفتے شائع ہونے والے ایک مضمون میں امریکی صدر جو بائیڈن کاکہنا تھا کہ ہمارا مقصد جنگ کو عارضی طور پر روکنا نہیں، بلکہ مقصد اس جنگ کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنا ہو گا۔ بائیڈن کے نزدیک دو ریاستی حل ہی اسرائیلی اور فلسطینی عوام دونوں کے لیے طویل المدتی سلامتی کی ضمانت دینے کا واحد راستہ ہے۔

ارون ڈیوڈ ملر امریکی محکمہ خارجہ کے سابق مشیر اور فلسطین اسرائیل تنازعے کے ماہر ہیں، بائیڈن کی بات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ اگر یہ خون جو اس جنگ میں بہایا گیا، کسی چیز کی نشاندہی کرتا ہے، تو وہ یہ ہے کہ اسرائیلی اور فلسطینی ایک ساتھ پرامن طریقے سے نہیں رہ سکتے۔ملر نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹویٹرایکس کے ذریعے کہا تھا کہ اس مسئلے کو حل کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ دونوں فریقوں کے درمیان علیحدگی پر بات چیت کی جائے، جس کا حصول انتہائی مشکل ہو گا۔

برطانوی میگزین دی اکانومسٹ کے مطابق غزہ تقریباً دو دہائیوں تک ایک حل طلب مسئلہ رہا، یہاں تک کہ 7 اکتوبر کی صبح جنگ شروع ہو گئی، جس نے اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔تاہم، دیگر افراد غزہ کی جنگ کو ایک بار اور ہمیشہ کے لیے تنازعہ کو حل کرنے کے راستے اور موقع کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اس سانحے کو ایک موقعے میں تبدیل کرنے کے بارے میں بات کی ہے۔گوتریس کاکہنا ہے کہ جنگ کے بعد ہم دو ریاستی حل کی راہ پر مضبوطی سے قدم بڑھائیں یہ بہت ضروری ہے ۔

دی اکانومسٹ کے مطابق امریکہ کو امید ہے کہ موجودہ جنگ کے خاتمے کے بعد عرب ممالک غزہ میں ایک امن فوج کا حصہ بنیں گے۔ اس تجویز کو متعدد اسرائیلی حکام کی حمایت حاصل ہے لیکن اب تک یہ واضح نہیں کہ عرب دنیا کے ممالک اس تجویز کا خیر مقدم کریں گے یا نہیں۔اس حوالے سے اردن کے وزیر خارجہ نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ کوئی عرب افواج غزہ کی پٹی میں داخل نہیں ہوں گی۔دی اکانومسٹ کا خیال ہے کہ عربوں کا یہ موقف قابل فہم ہے کیوں کہ وہ اسرائیل کے اقدامات کے نتائج کو برداشت نہیں کرنا چاہتے اور نہ ہی وہ غزہ کی پٹی پر دوبارہ قبضہ ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں۔