برمنگھم(رم نیوز) برطانیہ کے انتخابات میں لیبر پارٹی نے بڑے مارجن سے کامیابی حاصل کی اور کیئر سٹارمر نئے وزیر اعظم بن گئے۔ نئے وزیر اعظم کیئر سٹارمر کو بہت سے چیلنجز درپیش ہیں ، ان کے لیے بڑے چیلنجز میں غزہ اور یوکرین کے عالمی مسائل بھی ہیں۔سٹارمر کا برطانیہ میں وزیر اعظم کے طور پر پہلا مہینہ بین الاقوامی سفارتی تعلقات قائم کرنے کے لیے انتہائی اہم ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق ان کی کامیابی کے بعد سب سے پہلے بھارتی قیادت میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ برطانیہ کے انتخابات میں لیبر پارٹی کی شاندار فتح نے بھارتی قیادت کے لیے تشویش کا سامان کیا ہے۔ لیبر پارٹی کے لیڈر اور متوقع وزیراعظم کیئر سٹارمر نے عندیہ دیا ہے کہ تبدیلی آچکی ہے یعنی وہ بہت سے معاملات کو بدل دیں گے۔بھارت قیادت کے لیے لیبر پارٹی کی فتح اس لیے زیادہ پریشان کن ہے کہ لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن لیڈر جرمی کاربن نے چار سال قبل برطانوی پارلیمنٹ میں مقبوضہ جموں و کشمیر کے حوالے سے قرارداد پیش کی تھی۔
اس قرارداد کے پیش کیے جانے سے قبل بھارت کی آزادی کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر برطانوی ملکہ الزبتھ دوم نے بھارت کا دورہ کیا تھا تب سے دو طرفہ تعلقات میں کشیدگی برقرار ہے۔نئی دہلی کے لیے یہ امر کسی بھی اعتبار سے کم تشویش ناک نہیں کہ لیبر پارٹی مجموعی طور پر بھارت اور بھارتی نژاد تارکین وطن کے حوالے سے قدرے سخت گیر موقف کی حامل رہی ہے۔
سٹارمر کی امریکی صدر جو بائیڈن اور یورپی رہنماؤں سے ملاقاتیں ہوں گی ۔ وہ نیٹو کے اپنے قیام کی پچھترویں سالگرہ کے موقع پر سربراہی اجلاس میں شریک ہوں گے۔ یہ اجلاس منگل سے اگلی جمعرات تک واشنگٹن میں منعقد ہو رہا ہے۔
اس کے بعد سٹارمر 18 جولائی کو وسطی انگلینڈ کے آکسفورڈ کے قریب بلین ہائیم پیلس میں یورپی سیاسی گروپ کے اجلاس کی میزبانی کریں گے۔ اس اجلاس میں فرانسیسی صدر میکرون اور جرمن چانسلر اولاف شولز کی شرکت متوقع ہے۔لیبر پارٹی نے ایک حقیقت پسندانہ اور ترقی پسند خارجہ پالیسی پر عمل کرنے کا عہد کیا ہے۔ سٹارمر نے اپنی کابینہ کا بھی اعلان کردیا ہے اور ان کے سیکرری خارجہ ڈیوڈ لمی ہیں۔ ڈیوڈ لمی کہ چکے ہیں کہ ایک زیادہ غیر مستحکم دنیا کی موجودگی میں سب کچھ وہ نہیں ہوگا جو ہم چاہیں گے۔
لیبر پارٹی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اپنے عزم کا اعادہ کرتی ہے ۔ ایسے امن کا قیام جو دو ریاستی حل کی طرف لے جاتا ہے۔ لیکن اس نے ایسا کرنے کے لیے کوئی ٹائم ٹیبل طے نہیں کیا ہے ۔ پارٹی کے دیگر وعدوں میں فوری جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈالنا، تمام اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ تک پہنچنے والی امداد کی رقم میں اضافہ شامل ہے۔
لیبر پارٹی نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ اگر وہ جیت جاتے ہیں تو یوکرین کے لیے اپنی حمایت جاری رکھیں گے۔ توقع ہے کہ سٹارمر یوکرین کے صدر زیلنسکی سے جلد ملاقات کریں گے تاکہ وہ ذاتی طور پر اس پیغام کی تصدیق کر سکیں۔ سٹارمر نے کہا کہ روسی صدر پوتین سے ملاقات اس وقت میز پر نہیں ہے۔ سٹارمر نے انہیں یوکرین میں جارحیت کرنے والا قرار دیا۔
یورپ میں سٹارمر نے اقتدار میں آنے کی صورت میں فرانس میں دائیں بازو کی نیشنل ریلی پارٹی کے ساتھ کام کرنے کا عہد کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ اگر ہم منتخب ہوئے تو میں یورپ اور دنیا بھر میں کسی بھی حکومت کے ساتھ کام کروں گا۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ فرانس کے ساتھ دوطرفہ معاہدوں کو مضبوط اور بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر کشتیوں پر لوگوں کو بٹھانے والے گروہوں کو ختم کرنے کے حوالے سے معاہدوں کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔
تاہم 14 برس کے بعد اقتدار میں آنے والی لیبر پارٹی بھی یہ بات جانتی ہے کہ اس کو تبدیلی کے نام پر ووٹ ملے ہیں لہذا سٹارمر کو محتاط پالیسی اختیار کرنا ہوگی اور سارے مسائل سے نبرد آزما ہوناہو گا، ان کی پالیسیوں کے بارے میں تو آنے والا وقت ہی بتائے گا ۔