جاپان میں شرح پیدائش کم ۔۔۔ مسلسل تیسرے سال جنوری اور جون کے درمیان بچوں کی پیدائش کی تعداد چار لاکھ سے کم

ٹوکیو(رم نیوز)جاپان میں شرح پیدائش کم ہوگئی ہے۔رپورٹ کے مطابق مسلسل تیسرے سال جنوری اور جون کے درمیان بچوں کی پیدائش کی تعداد چار لاکھ سے کم ہوئی ہے۔ جاپان کے ابتدائی سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ سال کی پہلی ششماہی میں بچوں کی پیدائش کی تعداد 1969 کے بعد سے کم ترین سطح پر آ گئی ہے، جو کہ ملک کو درپیش آبادی میں کمی کے سنگین مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ جاپان میں شرح پیدائش میں کمی کے کئی عوامل کارفرما ہیں جن میں روز مرہ بڑھتے ہوئے اخراجات، تعلیم اور افرادی قوت میں خواتین کی بڑھتی ہوئی شرکت اور مانع حمل اشیا تک زیادہ رسائی شامل ہیں، جس کی وجہ سے خواتین کم بچے پیدا کرنے کا انتخاب کرتی ہیں۔

جاپان کی وزارت صحت کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق جنوری سے جون کے درمیان تین لاکھ 50 ہزار 74 بچے پیدا ہوئے جو گذشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 5.7 فیصد کم ہے۔اس سے گذشتہ چند سالوں میں پیدائش میں کمی کا رجحان جاری رہا۔ 2023 میں پیدائش کی کل تعداد بھی 1899 میں ریکارڈ شروع ہونے کے بعد سے سب سے کم ہے۔

30 اگست کی پاپولیشن سروے رپورٹ کے مطابق جاپان میں پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد میں پچھلے سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 5.7 فیصد یا 20 ہزار 978 کی کمی ہوئی ہے۔ 2023 میں بچوں کی پیدائش کی تعداد میں گذشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 3.6 فیصد یا 13,890 کی کمی واقع ہوئی۔

عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق جاپان میں دنیا میں 65 سال اور اس سے زیادہ عمر کے لوگوں کا دوسرا سب سے بڑا تناسب ہے، یعنی تقریباً 28 فیصد اور صرف ایک چھوٹی سی ریاست موناکو ہی اس سے آگے ہے۔ اندازوں کے مطابق 2050 تک جاپان کی موجودہ آبادی کا پانچواں حصہ کم ہو سکتا ہے۔

حکومت اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے مختلف اقدامات کی کوشش کر رہی ہے ، جن میں بچوں کی دیکھ بھال کی سہولیات میں اضافہ، ہاؤسنگ سبسڈی کی پیشکش اور یہاں تک کہ شادی اور بچے پیدا کرنے کی حوصلہ افزائی کے لیے حکومت کے ذریعے چلائی جانے والی ڈیٹنگ ایپ کا آغاز بھی شامل ہے۔

گذشتہ سال حکومت نے کابینہ اجلاس کے دوران اعلان کیا تھا کہ وہ شرح پیدائش میں کمی روکنے کے لیے غیر معمولی اقدامات پر عمل درآمد کرے گی۔ جاپان کے وزیر اعظم فومیو کیشیدا نے شرح پیدائش میں کمی کو تشویش ناک قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جاپان ’اس دہانے پر کھڑا ہے کہ آیا ہم ایک معاشرے کے طور پر رہ سکتے ہیں یا نہیں۔

اس سال جون کے اوائل میں ایک ترجمان نے کہا تھا کہ حکومت شرح پیدائش میں کمی سے نمٹنے کے لیے ’بے مثال اقدامات‘ اٹھائے گی، جیسے بچوں کی دیکھ بھال میں اضافہ اور کم عمر کارکنوں کے لیے اجرت میں اضافے کو فروغ دینا۔ٹوکیو کے 50 سالہ غیر شادی شدہ افراد کی تعداد جاپان میں سب سے زیادہ ہے، جہاں مردوں میں یہ شرح 32 فیصد اور خواتین کی 24 فیصد ہے۔

جاپان میں پیدائش میں کمی 1970 کی دہائی سے جاری ہے اور حالیہ برسوں میں اس میں تیزی آئی ہے، جس کے نتیجے میں پیدائش سے زیادہ اموات ہوئی ہیں اور آبادی سکڑ رہی ہے۔ 2023 میں جاپان میں 15 لاکھ 70 ہزار اموات ریکارڈ کی گئیں، جو کہ پیدائش کی تعداد سے دو گنا سے بھی زیادہ ہیں۔

اس سال جنوری میں پاپولیشن سٹریٹجی پینل نے ’پاپولیشن وژن 2100‘ کی تجویز وزیراعظم کیشیدا کو پیش کی تھی، جس کا مقصد شرح پیدائش میں اضافہ کرکے جاپان کی آبادی کو آٹھ کروڑ سے اوپر رکھنا تھا۔ کمیٹی نے آبادی کی حکمت عملی کی نگرانی کے لیے وزیر اعظم کی سربراہی میں ایک نئی کمیٹی تشکیل دینے کی سفارش کی، جس میں دو اہم شعبوں پر توجہ مرکوز کی جائے گی: بچوں کی پرورش کے حالات کو بہتر بنا کر آبادی کا استحکام اور پیداواری صلاحیت میں اضافہ کرکے معیشت کو مستحکم کرنا اور بہترین ہنر مند غیر ملکی کارکنوں کو لینا ہے۔