NA-1 چترال
این اے 1 پاکستان کی قومی اسمبلی کا حلقہ ہے۔ یہ پورے ضلع چترال پر مشتمل ہے. چترال ابتدا میں ایک شاہی ریاست تھی جو 1969 کے آخر میں پاکستان میں شامل ہوئی ت۔ زیل میں اس حلقے کی 2018 کی مکمل انتخابی تفصیل امیدواروں اور ان کی پارٹی سمیت درج ہے۔ اس حلقے کی کل آبادی 447362 کے لگ بھگ ہے۔ اس حلقہ میں 2018 کے عام انتخابات میں 269579 ووٹروں کا اندراج کیا تھا ۔ جس میں سے 15219 مرد حضرات اور 118360 خواتین شامل تھیں۔ 2018 کے الیکشن میں الیکشن کمیشنآف پاکستان نےاسے این اے 32 چترال سے این اے 1 چترال میں بدلنے کافیصلہ کیا.
یہ حلقہ پہلے این اے پشاور تھا 2018۔ جہاں سے ملکی تاریخ کے چند بڑے سیاسی ناموں نے انتخابات لڑے بشمول بے نظیر بھٹو ، عمران خان ، خان عبدالقیوم خان ، آفتاب شیر پاؤ اور غلام احمد بلور کے ۔ ۔پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ مجلس عمل واحد سیاسی جماعتیں ہیں جن کو چترال کے لوگوں کی جذباتی اور نظریاتی حمایت رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف بےتحاشا جھکائو کی وجہ سے اسے "دوسرا لاڑکانہ" بھی کہا جاتا تھا۔ 2013 میں ، مشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ (اے پی ایم ایل) نے انتخابات میں پورے پاکستان میں این اے کی ایک نشست جیتی اور یہ چترال سے تھی۔ جس کی وجہ ریٹائرڈ جنرل مشرف نے 2005 میں لواری سرنگ پر تعمیراتی کام شروع کیا ، جو پہلے فنڈنگ کی کمی کی وجہ سے چھوڑ دیا گیا تھا۔ لواری ٹنل چترال کو ملک کے دیگر علاقوں سے جوڑتی ہے ہے اور چترال کے عوام کے لیے موسم سرما میں ’لائف لائن‘ کی حیثیت رکھتی ہے۔ ساڑھے آٹھ کلومیٹر اس طویل سرنگ پاکستان کا سب سے بڑا ٹنل سمجھا جاتا ہے۔ اس منصوبے پر پہلی مرتبہ کام کا آغاز سن 2005 میں سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہوا لیکن بعد میں حکومتی دلچسپی کم ہونے کی وجہ سے تعمیراتی کام بار بار تاخیر کا شکار ہوتا رہا۔ چترال کی آبادی فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم ہے . بالائی چترال پر شیعہ اسماعیلیوں کا غلبہ ہے اور نچلے حصے میں سنیوں کا.